علامہ ابن جوزیؒ کی ذہانت وذکاوت کے واقعات سے سیر و تواریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آپ کی ذہانت کا ایک واقعہ سیرت کی کتابوں میں منقول ہے کہ ایک دن دو افراد میں جھگڑا ہوا، ایک کا دعویٰ تھا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ زیادہ افضل تھے، دوسرے حضرت علیؓ کی تفضیل و فضیلت ثابت کر رہا تھا۔ معاملہ بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے سے گزر کر مخاصمت اور جھگڑے کی شکل اختیار کر گیا۔ آخر کار فریقین اس پر تیار ہوگئے کہ علامہ ابن جوزیؒ کو حکم و فیصل بنایا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اس کو حق تسلیم کیا جائے۔
چنانچہ ایک دن جب ابن جوزیؒ منبر وعظ پر پندو نصائح فرما رہے تھے، درمیان سے فریقین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور ان سے دریافت کیا کہ من افضل الصحابہ؟ یعنی صحابہ میں زیادہ فضیلت والا کون ہے؟
حضرت ابن جوزیؒ کا معاملہ شناس ذہن سوال کی نزاکت سمجھ گیا، چونکہ اس وقت حکومت ان کے مخالفین کی تھی، اس لئے ابن جوزیؒ نے جواب اس انداز سے دیا کہ نہ تو اس سوال کرنے والے کے خلاف ہو کہ حق کی مخالفت لازم آئے گی اور نہ فریق مخالف سمجھے کہ جواب میرے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں ایذا رسانی اور فتنہ وفساد کی نوبت آجائے۔
آپ نے نہایت حکیمانہ اور مدبرانہ جواب دیا اور ارشاد فرمایا: کہ افضل صحابۃ الرسولؐ الذی بنتہ فی بیتہ، یعنی اصحاب رسولؐ میں زیادہ فضیلت والا وہ ہے کہ اس کی بیٹی اس کے گھر میں تھی۔ امام جوزیؒ صرف یہ کہہ کر فوراً چلے گئے، تاکہ اس جملہ کی تشریح نہ کرنی پڑے۔ ادھر ہر فریق اپنی جگہ خوش و مطمئن ہواکہ فیصلہ میرے عقیدے کے موافق ہوا۔ یعنی ایک سمجھا کہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ افضل وہ ہے جس کی بیٹی نبی کریمؐ کے گھر میں تھی، چونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دختر حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریمؐ کے گھر میں تھیں، اس لئے حضرت ابو بکرؓ افضل ہیں۔ دوسرے نے اس جملے سے یہ مطلب اخذ کیا زیادہ افضل وہ ہے جس کے گھر میں نبی کریمؐ کی دختر تھیں اور چونکہ آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ کے نکاح میں تھیں اس لئے حضرت علیؓ زیادہ افضل ہوئے۔
بہر حال حضرت ابن جوزیؒ کے ذہن نے اس جملہ میں ضمائر (ضمیر کی جمع) سے کام لے کر اس سوال کا بلیغانہ جواب دیا، جس سے فتنہ و فساد تک پہنچنے والی بات خوشگوار نتیجہ پر ختم ہو گئی اور خطرناک نتیجہ پر پہنچنے والا یہ شر وہیں رفع ہو گیا۔ اس طرح آپ کی ذہانت کے بے شمار واقعات کتابوں میں ہیں۔
(منقول از مظاہر حق شرح مشکوٰۃ جلد 1 ص 60.59 و کتاب الاذ کیاء، ص 18)
علامہ ابن جوزیؒ ساری عمر شمشیر وعظ اور نیزہ قلم سے جہاد حق کیا اور اسی راہ میں 597ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ علامہ ابن جوزیؒ صرف علم حدیث اور فن وعظ ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم میں آپ کو منفرد مقام حاصل تھا۔
آپؒ اسلام کے حقیقی شیدائی اور پیغمبر اسلامؐ کے سچے فدائی تھے۔ آپؒ اظہارِ حق کے لیے ننگی تلوار تھے۔ تذکرۃ الحفاظ میں آتا ہے کہ صاحب طبع شر خیز ابن عبد الوہاب نے اپنے مربی وزیر قصاب کو علامہ ابن جوزیؒ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا کہ کبھی ابن جوزی کی حرکات وسکنات کا بھی نوٹس لیا ہے، وہ کٹر ناصبی اور اولادِ ابوبکر سے ہے اور آپ کے منصب جلیل کے لیے کسی وقت بھی نقارئہ اجل بن سکتا ہے۔ بس اسی جرم کی پاداش میں آپ کی ساری جائیداد، گھربار اور اس کا مکمل اَثاثہ ضبط کر کیا گیا۔ اہل خانہ اور جگر کے ٹکڑے بچے بچیاں آنکھوں سے جدا کر کے دور دراز علاقوں میں پھینک دیئے گئے اور آپ کو پا بجولاں کشتی میں ڈال کر شہر واسط کے جیل خانہ کی طرف بھیج دیا گیا۔ جہاں آپ نے زنداں کی تنگ و تاریک کوٹھری میں پورے پانچ سال کمال صبرو استقلال سے یوں گزارے کہ خود کھانا تیار کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑے دھوتے اور زبانِ شکر سے یہ کہتے جاتے: اے پروردگار! تو نے مجھ سے ناتواں سے اپنے دین متین کی اتنی خدمت لی ہے۔ میں کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں!
قدرت نے آپ کو تصنیف کا ملکہ اور موقع بڑی فیاضی سے عطا کیا تھا یہاں تک کہ کثرتِ تصنیف میں آپ کا نام بطورِ ضرب المثل مشہور ہو گیا۔ اسمائے رجال کے امام علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں ابن جوزی جیسا صاحب تصانیف کثیرہ نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے۔ ابن خلکان تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ حکایت کرنے والے اگرچہ ابن جوزیؒ کی تعدادِ کتب کے بارے میں مبالغہ سے بھی کام لیتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کی تالیفات کو اِحاطۂ شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے حالات میں رقم شدہ تعداد مصنفات ایک سوکے عدد سے تجاوز نہیں کر پاتی، تو باقی کتب کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ صرصرِ زمانہ نے شاید ان پر گردِ نسیان ڈال دی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post