2 ایف آئی آرزنے معاملات کو الجھا دیا
اسلام آباد( رپورٹ: اخترصدیقی)سانحہ ساہیوال پر2ایف آئی آرزنے معاملات کوالجھادیا۔قانون دانوں نے کہاہےکہ اس طرح انصاف کاخون ہوسکتاہے،ملزمان کوبچانے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔تفصیلات کے مطابق ساہیوال میں پولیس کی فائرنگ سے ماں باپ بیٹی سمیت 4 افراد کی ہلاکت پر اتوار کو مقتول خلیل کے بھائی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ پولیس اپنی طرف سے پہلے ہی ایک ایف آئی آر درج کرچکی ہے۔ ولیس نے پہلے ایف آئی آر سی ٹی ڈی تھانہ لاہور میں ہفتہ کو درج کی تھی۔ اس ایف آئی آر میں پولیس کا مؤقف ہے کہ موٹرسائیکل پر سوار دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ کی جب کہ ان کے ساتھ ایک کار بھی تھی جس میں سوار ایک شخص نے اتر کر پولیس پر فائرنگ کی۔ ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ کار میں موجود افراد موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ موٹرسائیکل سوار اور کار سے اتر کا ایک شخص فرار ہوگئے۔ اس ایف آئی آر پر 19 جنوری کی تاریخ ہے۔ ساہیوال کے تھانے میں اتوار 20 جنوری کو مقتول جلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے مقتولین کو ’اغوا‘ کیا اور اڈا قادر کے مقام پر لے جا کر ’شہید‘ کردیا۔دوسری ایف آئی آر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد ’تقریباً‘ 16 لکھی گئی ہے۔ کسی ملزم کا نام نہیں۔ یہ ایف آئی آر ساہیوال میں لاشوں سمیت جی ٹی روڈ پر دھرنے کے بعد درج کی گئی۔اس بارے میںسینئرقانون دانوں نےکہاہےکہ ساہیوال واقعہ دہشت گردی ہےاس کے ذمہ داروں کوقرار واقعی سزاملنی چاہیے اورمعاملےکی عدالتی تحقیقات ہونی چاہییں ۔ چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ اس پرازخود نوٹس لیں قانون کےمطابق یہ مفادعامہ کامعاملہ ہےاس میں ازخود نوٹس بنتاہے۔جان بوجھ کرکسی مقدمےکودوسرے مقدمےکےذریعےجب الجھائےجانےکااندیشہ ہوتواس سےانصاف کاخون ہوسکتاہے۔سی ٹی ڈی کےاہلکاروں نےسیکشن 300،پولیس آرڈر2002،سیکشن 18،سیکشن 155سی ،کی بھی خلاف ورزی کی ہے اس لیے ان اہلکاروں کے خلاف قتل اقدام قتل کے ساتھ ساتھ اختیارات کے ناجائزاستعمال اور دہشت گردی کی دفعات لگاکرکاروائی کی جانی چاہیے ۔قانونی طورپر دوالگ الگ مقدمات درج کرنے سے ملزمان کوبچانے کی دانستہ کوشش قرار دی جاسکتی ہے ۔ان خیالات کا اظہار ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمداویس ،جسٹس (ر)فیاض احمد،اظہر صدیق ایڈووکیٹ ،اسلم گھمن ایڈووکیٹ ،نزیراحمدبھٹہ ایڈووکیٹ ،جلال خان ایڈووکیٹ ،سلمان ایڈووکیٹ نے امت سے گفتگوکے دوران کیا ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمداویس ایڈووکیٹ نےکہاہےکہ ایک واقعے پرصرف ایک ایف آئی آردرج کی جاسکتی ہےدوسری ایف آئی آرکی بجائےادارے کاردعمل دیاجاسکتاہے۔ادارےناکام ہوجائیں توپھر عدلیہ کواس کانوٹس لینے کاپورااختیار ہے۔ یہ دل دہلادینے والاواقعہ ہے اس لیے اگر کسی دوسری ایف آئی آرمیں ملزمان کونامزدنہیں کیاگیااور ان کے نام چھپائےگئےہیں توڈیوٹی روسٹرسےان کےنام معلوم کیے جاسکتے ہیں۔انھوں نےکہاکہ سیکیورٹی ادارے کاکسی کی جان لینےکےلیےمحض اسےدہشت گردکہہ دیناکافی نہیں ہے سیکیورٹی ادارےنےاگران کوروکناہی تھاتواس لیےکئی طریقے تھے گاڑی کے ٹائروں پرفائرکیاجاسکتاتھابچوں کوگولیوں کانشانہ کیوں بنایاگیاجبکہ گاڑی سوزوکی کارتھی کوئی ایف سکٹین تونہیں تھاکہ وہ روکانہیں جاسکتاتھاانھوں نے کہاکہ ایک واقعے پرصرف ایک ایف آئی آرہی درج کی جاسکتی ہے اور قانونی طورپر یہ یہی درست ہے اگر دوایف آئی آردرج کی گئی ہیں توان کاجائزہ لیاجاسکتاہے۔اس سےتحقیقات میں کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ انھوں نے کہاکہ وزیراعظم سمیت تمام اعلیٰ حکام نے اس واقعے کانوٹس لیاہے اور اس پر کاروائی بھی کی جائیگی اگرادارے ناکام ہوجاتے ہیں توپھر چیف جسٹس پاکستان اس پر ازخودنوٹس لے سکتے ہیں انھوں نے کہاکہ ملزمان کوقرار واقعی سزادی جانی چاہیے ۔جسٹس (ر)فیاض احمدنے کہاکہ معصوم افراد کاقتل دہشت گردی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ایسے واقعات سے حکومت کی جانب سے عوام کے جان ومال کے لیے کیئے گئے اقدامات کی قلعی کھول کررکھ دی ہے حکومت کواس کیس کوٹیسٹ کیس سمجھ کر اس کے ملزمان کوکیفرکردار تک پہنچاناچاہیے ۔دوالگ الگ مقدمات کے اندراج سے اصل مقدمہ ناصرف کمزورہوسکتاہے بلکہ اس کافائدہ ملزمان کوہی پہنچے گا۔وقت ضائع کیے بغیر اس کیس کومنطقی انجام تک پہنچایاجاناچاہیے ۔،اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ اس پر ازخود نوٹس لیں قانون کے مطابق یہ مفادعامہ کامعاملہ ہے اس میں ازخود نوٹس بنتاہے۔جان بوجھ کرکسی مقدمےکودوسرے مقدمے کے ذریعے جب الجھائے جانے کااندیشہ ہوتواس سے انصاف کاخون ہوسکتاہے ۔سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے سیکشن 300،پولیس آرڈر2002،سیکشن 18،سیکشن 155سی ،کی بھی خلاف ورزی کی ہے اس لیے ان اہلکاروں کے خلاف قتل اقدام قتل کے ساتھ ساتھ اختیارات کے ناجائزاستعمال اور دہشت گردی کی دفعات لگاکرکاروائی کی جانی چاہیے۔جب کار میں سوار افراد نے گاڑی روک دی تھی توپھر اس پر فائرنگ کیوں کی گئی ،اب دوالگ الگ مقدمات کیوں درج کیے گئے ہیں اس سے معاملات اور بھی الجھ جائیں گے ۔ایسانہیں ہوناچاہیے تھایہ واقعہ بھی ماڈل تاؤن کی طرح سے ہے جس میں خود تحریک انصاف جوڈشیل انکوائری کاکہتی رہی ہے ۔اس کیس میں بھی عدالتی تحقیقات کرائی جانی چاہیں ،قانونی طورپر توورثاء کی جانب سے دائرکردہ ایف آئی آرکوہی قانونی سمجھاجاسکتاہے تاہم دوسری ایف آئی آرکوجب چاہیے تفتیشی ختم کرنے کی عدالت سے درخواست کرسکتاہے ۔،اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس واقعے سے تولگتاہے کہ کوئی بھی اس ملک میں محفوظ نہیں ہے پولیس اوردیگرادارےجب چاہیں اورجس کوچاہیں دن دیہاڑےگولیاں ماردیں ۔ملک کوپولیس اسٹیٹ نہ بننےدیاجائے یہ بہت نازک معاملہ ہےاس حوالےسےسابق چیف جسٹس بھی پولیس ریفارمزکی باتیں کرتےرہےہیں اس لیےحکومت کوفوری طورپرپولیس کی نئی ریفارمزلاگوکرناچاہییں ذمہ داروں کے خلاف فوری اور سخت ایکشن لیاجاناچاہیے ۔چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدخان کھوسہ کہہ چکے ہیں کہ ازخود کم لیں گے یہ کیس ازخود نوٹس کے معیار پرپورااترتاہے کیونکہ ایک سرکاری ادارے نے معصوم افراد کوگولیاں مارکرہلاک کردیاہے اور اب وہی ادارہ اپنے لوگوں کوبچانے کی کوشش بھی کررہاہے اس لیے بہترہوگاکہ چیف جسٹس اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں اس سے بڑھ کر مفادعامہ کاکیس نہیں بن سکتا۔ ،نذیراحمدبھٹہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ واقعہ کے بعد سے وہ توسکتے کی کیفیت میں ہیں کیونکہ یہ واقعہ آئین وقانون کی کھلم کھلاناکامی کوظاہر کرریاہے اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے حکومت کوچاہیے کہ وہ ان معاملا ت میں کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہ کریں سخت سے سخت اقدامات کریں اور ملزمان کوکڑی سزادی جائے ،بچوں کواس واقعے کوبھلانے کے لیے بہت بڑاعرصہ درکا رہوگابچوں کواس صدمے سے نکلنے میں نفسیاتی ماہرین کی خدمات فراہم کی جائیں ۔جلال خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم بطور وکلاء سب سے زیادہ جس رویے سے شاکی رہتے ہیں وہ پولیس کارویہ اور کاروائیاں ہی ہیں انھوں نے کہاکہ انھوں نے اپنے پروفیشن میں جتنے بھی مقدمات کوڈیل کیاہے ان میں پولیس کسی نہ کسی طرح سے ملوث ضرورر دکھائی دی ہے ۔پتہ نہیں یہ پولیس کی مجبوری ہے یاہمارے نظام کی کوئی خرابی ہے کہیں شہادتیں غائب کردی جاتی ہیں توکہیں شہادت نہ سرے سے پیداکرلی جاتی ہے پولیس مقابلے میں لوگوں کومارنااس کے پہلےبھی کافی واقعات سامنےآئے ہیں انسداددہشت گردی فورس ایسے واقعات کررہی ہےایسےواقعات کی جوڈیشل انکوائری کی جانی چاہیے چیف جسٹس پاکستان بھی اس پرازخود نوٹس لیں ،سلمان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ازخود نوٹس زیادہ نہ لینایہ چیف جسٹس پاکستان کافیصلہ خوش آئند ہے مگراس طرح کے واقعات پر توکم ازکم ازخود نوٹس بنتاہے اس لیے یہ ازخودنوٹس لیاجاناچاہیے ۔