آخری حصہ
حجاج بن یوسف کی باتیں سن کر ابومنذرؒ نے کہا: اے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں۔ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں۔ محبت کرتے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا، کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی۔ تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی۔ راہ حق سے کٹ گیا تھا۔ صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماعت فنا کر ڈالی۔ تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا۔ افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی۔ تو نے خون کی ندیاں بہا دیں۔ جانیں لیں، آبروئیں برباد کیں، قہر و جبر کی روش اختیار کی۔
تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا، نہ دنیا ہی پائی۔ تو نے خاندان مروان کو عزت دی۔ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر آباد کیا، مگر اپنا گھر ویران کر لیا، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا، تو اس امت کے لئے مصیبت اور قہر تھا۔ خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی۔‘‘
ابو منذرؒ کی تقریر سن کر حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا، دیر تک سناٹے میں رہا، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ ’’اے الٰہی! مجھ بخش دے، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا‘‘ پھر یہ شعر پڑھا :
’’الٰہی! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا، حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
حجاج کی موت کے بعد جب قیدیوں کو شمار کیا گیا تو ان میں ایک لاکھ بیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں تھیں اور ان میں چار ہزار ایسی عورتیں تھیں جن کے جسم پر لباس نہیں تھا۔
اور یہ قیدی ایک ہی چار دیواری میں قید تھے، قید خانہ کی چھت نہیں تھی، جب کوئی قید گرمی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کا سایہ بناتا تو زندان کے سپاہی اس کو پتھر مارتے تھے۔
انہیں جو کی روٹی میں ریت ملا کر کھانے کو دی جاتی۔ پینے کے لیے انہیں کڑوا پانی دیا جاتا۔
حجاج بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے خون بہانے کو اعزاز سمجھتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے روزہ رکھنا چاہا تو نوکروں کو حکم دیا کہ اس کے لیے من پسند سحری اور افطاری کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ اشارہ فہم نوکروں نے اس کے لیے ایسی روٹیاں تیار کیں، جنہیں سادات کے خون سے گوندھا گیا تھا۔ اس نے اسی روٹیوں سے سحری افطاری کی۔ اس کو ہمیشہ اس بات کا دکھ رہتا تھا کہ وہ کربلا میں موجود نہ تھا، ورنہ وہ شمر سے بھی بڑھ کر ظلم کرتا۔
حجاج نے کوفہ و بصرہ کے درمیان شہر واسط کی بنیاد رکھی تھی، جہاں وہ نو ماہ سے زیادہ قیام نہ کر سکا اور فورا ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
ابن خلکان لکھتے ہیں حجاج کو عرضہ آکلہ لاحق ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کے اندر بچھو نما کیڑے پیدا ہو گئے۔ ایک طبیب کو بلایا گیا تو اس نے گوشت کا اک ٹکڑا ریشم کی رسی کے ساتھ باندھا اور حجاج کو کہا وہ اس گوشت کے ٹکڑے کو نگل لے۔ حجاج نے گوشت کا ٹکڑا نگلا اور کچھ دیر بعد ریشم کی ڈور سے اس ٹکڑے کو کھینچا تو اس ٹکڑے پر بہت سارے کیڑے چمٹے ہوئے تھے۔
حق تعالیٰ نے حجاج کے جسم پر سردی کو مسلط کر دیا۔ اس کے اطراف میں دن رات کوئلوں کی انگیٹھیاں جلائی جاتی تھیں، لیکن وہ پھر بھی سردی سے چلاتا رہتا تھا۔ اس نے حسن بصریؒ سے اپنے درد و الم کی شکایت کی تو انہوں نے کہا میں نے تجھے بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے قتل سے بارہا منع کیا تھا، لیکن تو باز نہ آیا، آج تو اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
حجاج نے کہا میں خدا سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ مجھے دوزخ سے آزاد فرمائے، میری بس اتنی سی دعا ہے، جلدی سے میری روح قبض کر لے تاکہ میں دنیا کے درد و الم سے چھٹکارہ حاصل کر سکوں۔
قاضی شوستری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں: موت کے وقت حجاج رونے لگا۔ وزیر نے رونے کا سبب پوچھا تو کہا میں نے لوگوں پر ظلم کیا ہے، بالخصوص اولاد پغیمبرؐ پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔
خوشامدی وزیر کہنے لگا امیر آپ کیوں گھبراتے ہیں، آپ نے جو کچھ بھی کیا ہے، دلیل و برہان کے ساتھ کیا ہے اور اسے کسی طرح بھی ظلم نہیں قرار دیا جا سکتا۔
حجاج نے کہا اگر قیامت کے دن مجھے حکومت دی جائے اور تو اس دن میرا وزیر ہو تو اس دن بھی یہ ہی دلیل و برہان ہمیں کام دے گی، سنو میں بخوبی جانتا ہوں میری موت کا وقت آچکا ہے اور دوزخ میرا انتظار کر رہی ہے، خدا نے چاہا تو دوزخ میں بھی تیری اور میری جوڑی قائم رہے گی۔
Prev Post
Next Post