قاتل سی ٹی ڈی اہلکار بچانے کیلئے حکومت سرگرم

0

لاہور/ساہیوال(بیورو رپورٹ/مانیٹرنگ ڈیسک) سانحہ ساہیوال میں ملوث قاتل سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بچانے کیلئے حکومت سرگرم ہوگئی۔ مقدمہ اندراج کے باوجود کسی کو نامزد نہیں کیا گیا، حالانکہ موبائل گاڑی میں سوار تمام اہلکاروں کا مکمل ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔وزیر قانون پنجاب نے محکمہ انسداد دہشت گردی کے نئے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے تمام ملبہ گاڑی چلانے والے ذیشان پر ڈال دیا , جبکہ خلیل کے اہلخانہ کو بے گناہ تسلیم کرلیا ہے۔ صوبائی وزرا میاں محمود الرشید ،فیاض الحسن چوہان، میاں اسلم اقبال اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے راجہ بشارت نے دعوی کیا کہ ذیشان کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش سے تھا اور اس کےگھر میں دہشت گرد موجود ہونے کے مصدقہ شواہد ملے ہیں، انہوں نے کہا کہ ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد ٹھوس شواہد کی بنا پر کیا گیا ، تاہم اس کے باوجود کارروائی کرنے والے سی ٹی ڈی کے سپر وائزر کو معطل جبکہ باقی اہلکاروں کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ صوبائی حکومت متاثرہ خاندان کیلئے 2 کروڑ روپے امداد دے گی اور بچوں کی تعلیم کے تمام اخراجات اٹھائے گی۔قبل ازیں خلیل کے ورثا کی جانب سے احتجاج اور میت نہ اٹھانے پر مذاکرات کے بعد سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔پولیس کے مطابق مقتول خلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں ، تاہم کسی اہلکار کو نامزد نہیں کیا گیا۔مقدمہ اندراج کے بعد مظاہرہ ختم کردیا گیا ، تاہم جاں بحق افراد کے ورثا نے وزیراعظم عمران خان اور پنجاب حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ خلیل کے بھائی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا دورہ بھی صرف خانہ پوری تھی ہم ان کے اقدامات سے مطمئن نہیں، جعلی مقابلہ کرنے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ہمارے سامنے لایا جائے۔ جلیل نے مزید کہا کہ پولیس نے ہماری ایف آئی آر کاٹنے کی بجائے مرنے والوں پر ہی مقدمہ درج کردیا تھا۔واضح رہے کہ تھانہ سی ٹی ڈی لاہور میں واقعہ میں جاں بحق افراد پر بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اسی دوران مقتولین کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹس سامنے آگئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ خلیل کو سب سے زیادہ 13 گولیاں سینے اور ہاتھ پر لگیں جبکہ گاڑی چلانے والے ذیشان کو 10 گولیاں لگیں۔رپورٹ کے مطابق خلیل کی بیٹی اریبہ کو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر 6 گولیاں لگیں، جبکہ نبیلہ کو 4 گولیوں کے زخم آئے۔ دوسری جانب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کا ایک اور مؤقف سامنے آیا ہے جس میں خلیل اور اہلخانہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہاگیا کہ ذیشان کالعدم داعش کا سرگرم کارندہ اور دہشت گردوں کو پناہ دیتا تھا۔ اس کے ساتھیوں کا نیٹ ورک ہائی پروفائل کیسزمیں ملوث تھا، ساہیوال آپریشن حساس اداروں کےساتھ مل کر کیا، ذیشان کی گاڑی کو سی سی ٹی وی کیمروں نے مانیٹرکر کے سی ٹی ڈی کو اطلاع دی، شیشے کالے ہونے پر گاڑی میں موجود دیگر لوگ نظرنہ آئے۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ اہلکاروں نے کار کو رکنے کا اشارہ کیا اور کار نہیں رکی جب کہ ڈرائیور ذیشان نے اہلکاروں پر فائرنگ کی جب کہ کار کے پیچھے آنے والے موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان نے بھی سی ٹی ڈی اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں دہشت گرد ذیشان ہلاک ہوگیا، جبکہ اس کے ساتھ کار میں سوار خاندان کے افراد بھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ترجمان کے مطابق ذیشان کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا اور متاثرہ خاندان کو بورے والا چھوڑنے کے بعد اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اسے خانیوال یا ملتان میں کہیں چھوڑ دے۔ترجمان نے مزید کہا کہ شاید خلیل کے خاندان کو ذیشان سے متعلق معلوم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد بن چکا ہے، دہشت گرد نے خاندان کو استعمال کیا اور وہ اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ترجمان سی ٹی ڈی نے کہا کہ ساہیوال شوٹ آؤٹ کے بعد کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، میڈیا پر چلنے والی ویڈیو وقوعے کے بعد کی ہے ۔ اس لیے قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔ بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی ٹی ڈی مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ 13 جنوری کو دہشت گردوں کی گاڑی کو سیف سٹی کیمروں نے محفوظ کیا، ذیشان کی گاڑی بھی انہی گاڑیوں میں شامل تھی، 13 سے 18 جنوری تک سیف سٹی کیمروں کا معائنہ کیا گیا ہے، 19جنوری کوسیف سٹی کے کیمروں نے مانگا منڈی کے قریب سفید کار کو ٹریس کیا، کارروائی کے لیے مشتبہ گاڑی کا آبادی سے باہر نکل جانے کا انتظار کیا گیا ۔راجہ بشارت کا کہناتھا کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس معلومات پر کیا گیا،جس میں معصوموں کی جانیں بچائی گئیں البتہ خلیل فیملی کے نقصان کی وجہ سے آپریشن کی حیثیت چیلنج ہوگئی، سی ٹی ڈی اور حساس ادارے نے مشترکہ آپریشن کیا،فائرنگ کیوں اورکیسے ہوئی ؟تعین کیلئے جے آئی ٹی بنادی گئی ہے اور اصل وجوہات کا تعین کرناابھی باقی ہے البتہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی سے اسلحہ، بارود، ہینڈ گرنیڈ و دیگر اشیا برآمد کیں۔راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ ہم یہاں کسی کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے کے لیے نہیں بیٹھے لیکن گاڑی میں خود کش جیکٹ موجود تھی جو کسی نے پہنی ہوئی نہیں تھی،اگر دہشت گردوں کا پیچھا نہ کیا جاتا تو پنجاب میں بڑی تباہی ہوسکتی تھی،ذیشان ساہیوال اوراس کےساتھی گوجرانوالہ میں مارے گئے،ساہیوال واقعہ پرجتنابھی افسوس کیاجائےکم ہے، وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب نےساہیوال واقعےکاسخت نوٹس لیا ہے۔ پنجاب حکومت نےمشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دےدی ہے ، تحقیقات میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور بلا امتیاز انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے ساہیوال اسپتال جاکر بچوں کی عیادت کی اور خلیل کے بھائی سے بھی ملاقات کی۔ واقعےکی ایف آئی آردرج ہوچکی ہے۔صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے متاثرہ خاندان کیلئے 2 کروڑ روپے مالی امداد کا اعلان کیا گیا ہے ،جبکہ بچوں کی تعلیم کے تمام اخراجات بھی حکومت برداشت کرے گی اور میڈیکل کی مفت سہولت فراہم کی جائے گی ، تاہم مالی امدادکسی انسانی زندگی کا مداوا نہیں البتہ حکومت خلیل کےبچوں کوتنہانہیں چھوڑےگی، وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب کومتاثرہ خاندان سے ہمدردی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت اعلی سطح کا اجلاس بھی منعقد ہوا ، جس میں ساہیوال واقعہ کے بارے میں اب تک ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلی نے اس موقع پر کہا کہ واقعے کا مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔وزیراعلیٰ نے حکام کو ہدایت کی کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں واقعہ کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اوراعلیٰ حکام نے وزیراعلیٰ کو واقعہ کے بارے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ بھی پیش کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More