قمر زمانی کے مکتوب میں دلگیر کو تڑپانے کا سامان کیا گیا

0

ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کا یہ خط 18 مارچ کا ہے۔ قمر زمانی نے اس کا تفصیلی جواب ایک ہفتے کے بعد اس طور پر دیا:
بریلی 25 مارچ 17ء
قمر نواز۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ آپ کے خط بہت دیر میں ملتے ہیں جن صاحب کے ذریعے سے خطوط ملتے ہیں وہ اکثر باہر رہتے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ بغیر ان کے مجھے مل جایا کریں۔ آپ کا 18 کا لفافہ مجھے آج ملا ہے اور ادھر قیامت یہ ہے کہ جہاں جواب میں دیر ہوئی، آپ برہم ہوتے ہیں اور مجھے ایک تکلیف ہوتی ہے کہ خط کیوں دیر سے ملا۔ آپ جواب کے منتظر ہوں گے اس لیے آپ اپنی محبت کی بنا پر انتظار تو ضرور کیا کریں۔ لیکن خدا کے لیے تاخیر کی شکایت نہ کیا کریں کہ میرا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اور علاج میرے بس کا نہیں۔
آپ کی یہ تحریر خلاف توقع نہیں ہے۔ اس لیے میرے لیے زیادہ خوشی کی بات بھی نہیں۔ اگر آپ ایفائے محبت کا وعدہ کرتے ہیں تو بڑا کمال نہیں کیونکہ میرے نزدیک یہ لازمہ شرافت ہے اور میرے نزدیک تو دنیا میں عہد شکنی کا وجود ہی نہیں ہے۔ جس کو زمانہ عہد شکنی کہتا ہے، وہ فی الاصل عہد ہی نہیں ہوتا، ایک عہد کا حال تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے۔ یعنی عہد کو عہد اسی وقت کہہ سکتے ہیں جب اس پر قائم رہنے کی طرف سے اطمینان ہو جائے۔ اس لیے میں تو اس اقرار کو بھی لغو جانتی ہوں، کہنے کی ضرورت کیا۔ انسان کے عادات و اطوار خود بتاتے ہیں دیکھئے آپ ہمیشہ خیال کو بلند رکھئے۔ بعض دفعہ آپ بہت سبک باتیں کرنے لگتے ہیں اور مجھے سخت ایذا ہوتی ہے پہلے تو آپ کا غصہ پھر میری تحریر پر آپ کا یہ فرمانا کہ:
’’نہیں اب محبت واپس نہ لوں گا، اب میں ناز نہیں نازبرادری کروں گا۔‘‘
خود ہی غور فرمایئے کہ یہ کیا ہے، کیسا ناز کیسی ناز برداری۔ یہ آپ کے ذہن میں خیال کہاں سے پیدا ہوا۔ میں آپ کو چاہتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ فرض پورا کرتی ہوں۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو یقین کیجئے یہ آپ کا فرض تھا۔ پھر اس میں یہ نمائش کیسی کس کا ناز اور کیسا نیاز؟
آپ کو معلوم ہے قوس قزح میں کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ سب الگ الگ لیکن بھلا کوئی یہ تو بتا دے کہ کون رنگ کہاں سے شروع ہوا۔ آہ گھل مل جانا کوئی فطرت سے سیکھے۔ شیر و شکر دو جدا چیزیں ہیں لیکن گھل مل جانے کے بعد دونوں کا مزہ الگ الگ معلوم ہو سکتا ہے؟ پھر اگر دودھ فخر کرے کہ لذت میری ہے یا شکر کہے کہ مزہ تو مجھ سے پیدا ہوا ہے لغو ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ دو مل کر ایک ہو جاتے ہیں جو وحدت ہے وہ تیری وحدت میں بھی نہیں۔ خیر یہ تو ایک افسانہ ہے نہ موقع نہ ضرورت لیکن اس قدر کہنا ضروری سمجھا کہ آپ کو میری طبیعت کا اندازہ ہو جائے آپ نے جس ٹکڑے کی اس قدر تعریف کی ہے وہ اس قابل تو نہ تھا، لیکن اب آپ کی قدر نے اس کی وقعت البتہ بڑھا دی، شکریہ۔
میں اس زمانے میں بہت پریشان رہی اور اب بھی ہوں۔ تاہم مضمون ضرور لکھوں گی۔ میں پہلے خط میں بھی لکھ چکی ہوں اور اب بھی لکھتی ہوں کہ میرا قیام یہاں بہت کم رہے گا اور یہ ایک بڑی فکر ہے۔ یہاں میں زیادہ آزاد رہی۔ لیکن دہلی یا لکھنؤ جاکر میں بہت پابند ہو جائوں گی۔ آج کل میرے متعلق ایک خاص مسئلہ پر غور ہورہا ہے۔ لیکن اب میں کسی طرح اس کی تحریک نہیں چاہتی، آپ ہی فرمایئے کیا کروں، سچ ہے ایک عورت کے لیے انکار جتنا سہل ہے اسی قدر دشوار بھی ہے۔ آپ فکرمند نہ ہوں کیونکہ دنیا میں کوئی کام میرے لیے اتنا سہل نہیں جتنا کہ وہ جس کیلیے میں کوئی ارادہ کر چکی ہوں۔
آپ کی’’قمر‘‘
قمر زمانی نے مندرجہ بالا خط 25 مارچ کا مرقومہ ہے اور دلگیر کے خط مرقومہ 18 مارچ کا جواب ہے، ابھی قمر زمانی کا خط مرقومہ 25 مارچ لکھا جارہا تھا کہ اس سے ایک دن پہلے 24 مارچ کو شدید جذبات میں ڈوبا ہوا ایک اور خط دلگیر نے قمرزمانی کو اس طور پر لکھ بھیجا:
24 مارچ
پیاری قمر،
میری تباہی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ اس خطاب نے پوری کر دی اللہ تمہیں سلامت رکھے اور مجھے اس خطاب کا اہل ثابت کرے۔
میں شرمندہ ہوں کہ مجھ سے آپ کی تعریف آپ کی شان کے لائق نہ ہو سکی۔ اس پر بھی آپ شرمندہ ہوں تو ظلم ہے کہ نہیں؟
اب جو کچھ ہو، یہ مجھے سوجھی خوب۔ اس پر میں ناز کر سکتا ہوں خوش خطی کا حال مجھ سے پوچھئے جس کی نوک پلک دل میں پیوست ہے۔ آہ۔
بس آپ چپ ہی رہئے اور کرنے دیجئے جو میرا دل چاہے۔
کل 23 مارچ کو بمبئی سے بلاک کا تخمینہ آیا تھا۔ جو آپ کے ملاحظہ کے لیے ارسال ہے۔
کل ہی تار دیا گیا کہ فوراً بلاک بنا کر زیادہ سے زیادہ 31 تک روانہ کر دیا جائے۔ خدا کرے وقت پر بلاک بن کر آجائے، ورنہ پرچہ کی اشاعت میں خواہ مخواہ دیر ہو گی جو مجھے کسی طرح منظور نہیں۔ نقاد پریس میں ہے اور چھپ رہا ہے۔ انشااللہ تعالیٰ 31 مارچ کو چھپ کر تیار ہو جائے گا۔ اس وقت تک بلاک بن کر آگیا تو فوراً پرچہ روانہ ہو سکے گا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ’’افتتاح افتتاحیہ‘‘ آپ کو پسند آیا۔ یہ قدردانی نہیں قدر افزائی ہے اور وہ بھی نااہل کی۔ سچ یہ ہے کہ آپ کے کلمات محبت اور جذبات قدر افزائی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں بھی تو نہیں ہو سکتا۔
ہائے تفصیل نہ لکھ کر آپ نے بہت بے چین کر دیا۔ خدا کے لیے صاف صاف لکھیں۔ مفصل لکھئے اور جلد لکھئے کہ آپ داستان درد آپ کب سنائیں گی، کب سنیں گی، کہاں سنائیں گی، کہاں سنیں گی، سچ کہتا ہوں اب مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا۔ خدا جانے کس کس طرح اپنے غمگین اور زخمی دل کو سمجھا رہا ہوں۔ بہلا رہا ہوں، پھسلا رہا ہوں۔ لیکن یہی بیگانگی و لاعلمی قائم رہی تو چند مہینوں سے زیادہ نہیں جی سکتا۔ اس لیے چاہتا ہوں، آہ کس قدر چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی ہی میں آپ کی داستان درد سن لوں، اپنی غم بھری کہانی آپ کو سنا دوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More