امت رپورٹ
سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں دہشت گرد قرار دے کر گولیوں سے بھون دیئے جانے والے نوجوان ذیشان کو مرکزی جمیعت اہلحدیث نے بھی بے گناہ قرار دیا ہے۔ جبکہ محلہ داروں کے مطابق محمد ذیشان نے غریب خاندان مین آنکھ کھولی تھی۔ پہلے کمپیوٹر کے کاروبارسے منسلک تھا، نقصان اٹھانے کے بعد کاریم آن لائن ٹیکسی سروس سے منسلک ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے گزشتہ روز ذیشان کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ دہشت گردوں کا سہولت کار تھا۔ تاہم دوسری جانب لاہور سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ذیشان جاوید اپنے علاقے، چونگی امر سدھو میں مقبول تھا اور تقریباً وہاں کے رہائشی سب لوگ اس کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کا تعارف مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے تھا۔ اتوار کی رات لاہور میں محمد ذیشان کی نماز جنازہ پڑھانے والے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے لاہور شہر کے امیر رانا نصر اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ محمد ذیشان کو کئی سال سے جانتے ہیں۔ محمد ذیشان ان کی یوتھ ونگ کا فعال کارکن تھا اور پارٹی سرگرمیوں میں فعال رہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذیشان انتہائی شریف نوجوان تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا اور خاموشی سے اپنا وقت گزارتا تھا۔ کبھی کسی لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پنجاب حکومت کا دعوی مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ذیشان جاوید کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کو واپس لیا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
اسی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے لاہور میں سیکریٹری اطلاعات حافظ سعد رفیق بھی ذیشان جاوید کو گزشتہ دس سال سے جانتے ہیں اور اس کے محلے دار بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے سنا کہ حکومت پنجاب اور سی ٹی ڈی نے ذیشان جاوید پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کیا ہے تو میں سکتے کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ میں کیا، کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ذیشان جاوید کچھ عرصہ قبل کمپیوٹر اور موبائل کے تھوک کے کاروبار سے منسلک تھا جس میں اس کو صرف اس وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ گیا تھا کہ کچھ کاروباری لوگوں نے اس کے پیسے دبا لیئے تھے۔ وہ انتہائی پریشان تھا، لیکن پھر بھی ان لوگوں سے پیسے واپس لینے کیلئے سخت بات نہیں کرتا تھا۔ بلکہ کہتا تھا کہ میرا اللہ مالک ہے۔ جھگڑا کرکے کیا کرنا ہے۔‘‘ حافظ سعید رفیق نے بتایا کہ ’’ہمیں حکومت کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن کی رپورٹ کا انتظار ہے اور ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے کے بعد اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
ذیشان جاوید کے چھوٹے بھائی احتشام جاوید، جو لاہور ڈولفن پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا پورا خاندان لٹ چکا ہے۔ میری والدہ کو عشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ میری بھابھی سنبھالی نہیں جارہی ہے۔ مجھے خود سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں، کدھر جاؤں، کس سے انصاف طلب کروں؟ پہلے بھائی قتل ہوا اور اب دہشت گرد قرار دے کر پورے خاندان کو زندہ درگور کیا جارہا ہے، جو میں کیا پورا محلہ اور علاقہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے بھائی کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ خلیل کا بچپن کا جگری یار تھا۔ خلیل علاقے میں پرچون کی دوکان کرتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ خلیل نے اپنے خاندان کی شادی میں جانا تھا جس کیلئے وہ ذیشان کو ساتھ لے گیا تھا۔‘‘
اس علاقے کے بزرگ اور ذیشان جاوید کے پڑوسی محمد رضوان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ ذیشان جاوید کے خاندان کو اس وقت سے جانتے ہیں جب ذیشان جاوید اس دنیا میں بھی نہیں آیا تھا۔ ذیشان جاوید کی والدہ شادی کے بعد سیالکوٹ چلی گئی تھیں مگر علیحدگی کے بعد اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ واپس اپنے والدین کے گھر آگئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ذیشان جاوید کی والدہ انتہائی بہادر اور جرات مند خاتون ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے بیٹوں کو پالا اور بڑا کیا۔ مگر اب وہ حوصلہ چھوڑ چکی ہیں اور اس کی حالت قابل رحم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذیشان جاوید بڑا بیٹا تھا جس نے بچپن ہی سے محنت مزدوری کرنا شروع کردی تھی۔ اس کی ماں نے اپنے ہی رشتہ داروں میں بڑے چاہ سے بیٹے کی شادی کرا دی تھی۔ ذیشان جاوید بھی اپنی والدہ کا انتہائی فرماں بردار تھا۔ کچھ عرصہ قبل کمپیوٹر کا کام شروع کیا تھا جس میں مسائل پیدا ہوئے تو آن لائن ٹیکسی سروس کے ساتھ منسلک ہوگیا تھا۔ خلیل کے ساتھ ذیشان کا بچپن کا یارانہ تھا اور دونوں دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔
ذیشان جاویدکے دیگر محلہ داروں کا بھی کہنا تھا کہ ذیشان اور اس کا خاندان مزدور پیشہ تھا۔ کبھی کسی منفی سرگرمی میں نہیں دیکھا۔ ذیشان جاوید اپنے علاقے میں معروف تھا اور تقریباً تمام لوگ اس کو جانتے ہیں۔ محلے داروں کے مطابق ذیشان جاوید مرکزی جمعیت اہلحدیث کے یوتھ ونگ کا فعال کارکن تھا اور اس کے پروگراموں میں شرکت کرتا تھا۔
خیال رہے کہ ساہیوال واقعہ کے حوالے سے پنجاب حکومت کے وزیر قانون راجہ بشارت نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ذیشان شدت پسند تنظیم کا سہولت کار تھا اور کار میں اسلحہ منتقل کیا جارہا تھا۔ دوسری جانب غیر ملکی خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ایک پولیس افسر کی سربراہی میں بنائی جانے والی پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور منظر عام پر آنے والی ویڈیوز نے بھی محکمہ برائے انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔ اگر سی ٹی ڈی کا یہ موقف بھی مان لیا جائے کہ کہ گاڑی میں دہشت گرد سوار تھے تو بھی 13 سالہ بچے اور اس کی ماں کو اتنے نزدیک سے گولیاں مارنے کا کیا جواز تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق گاڑی میں سوار افراد کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا کیوں کہ عینی شاہدین کے بقول گاڑی میں سوار افراد غیر مسلح تھے۔
ادھر اطلاعات کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ سانحہ ساہیوال کی ابتدائی تفتیش کے کچھ حقائق سامنے آ گئے ہیں جن کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے معلومات کی بنیاد پر آپریشن کیا۔ تاہم سی ٹی ڈی نے اس کیس میں پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اطلاعات میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مقتولین کو قتل کرنے کی ذمہ داری سی ٹی ڈی اہلکاروں پر ڈالی گئی ہے اور غفلت کے مرتکب سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ اسی طرح آپریشن میں ملوث اہلکاروں کے نام بھی سامنے آگئے ہیں جس کے مطابق سب انسپکٹر صفدر حسین کی قیادت میں آپریشن کیا گیا جبکہ دیگر اہلکاروں میں احسن خان، محمد رمضان، سیف اللہ اور حسنین اکبر شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭