جےآئی ٹی نےڈیوٹی روسٹر-سی ٹی ڈی اہلکاروں کی تفصیل-قواعد مانگ لیے

0

اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی)حکومت پنجاب کی بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نےاپنی ابتدائی رپورٹ تیار کرناشروع کردی ہےامکان ہےآئندہ 48گھنٹوں میں یہ رپورٹ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت دیگرذمہ داروں کوارسال کیےجانے کاامکان ہےجبکہ جے آئی ٹی نےسی ٹی ڈی سےوقوعہ کے روز کاڈیوٹی روسٹر،اہلکاروں کےحوالے سے تفصیلات اورسی ٹی ڈی کےکام کرنےکےقواعدوضوابط بھی مانگ لیےہیں جن کی روشنی میں سیکیورٹی اہلکاروں کےاقدام کوپرکھاجائیگا۔جبکہ جےآئی ٹی سےتین عینی شاہدین نےرابطہ کیاہے اور اپنی گواہی ریکارڈ کرانے کی درخواست کی ہے تاہم ان کے نام صیغہ رازمیں رکھے جارہے ہیں اور اسی وجہ سے ابھی تک جے آئی ٹی کی جانب سے انھیں طلب نہیں کیاگیاہے ۔تینوں گواہوں نے مختلف فاصلے سے سی ٹی ڈی اہلکارو ں کوفائرنگ کرکے کار سواروں کوہلاک کرتے ہوئے دیکھاہے ۔تاہم پولیس خوف سے اس واقعے پر زبان نہیں کھولی تھی مگر اب میڈیاکی جانب سے اس کیس کوموثر اندازمیں اٹھانے پر ان گواہوں نے اپنی گواہی ریکارڈپر لانے کافیصلہ کیاہے ۔پولیس ذرائع نے امت کوبتایاہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ایڈیشنل آئی جی اعجازشاہ کی سربراہی میں کام شروع کردیاہے اور انھوں نے اس حوالے سے جائے وقوعہ کاتفصیلی دورہ کیاہے ۔اس دوران انھوں نے 60سے زائد افراد سے بات چیت کی ہے اور ان سے وقوعہ کے حوالے سے تفصیلات معلوم کی ہیں ۔ جے آئی ٹی کے ممبران کی تعدادمیں بھی اضافہ کردیا گیاہے۔جےآئی ٹی نے واقعےکےعینی شاہدین کوپولیس لائن میں آکربیان ریکارڈ کرانےکی ہدایت کی جس پر عینی شاہدین نےموقف اپنایاکہ ان سے واقعے کی جگہ ہی بیانات لیے جائیں۔عینی شاہدین کے انکار پرجےآئی ٹی ارکان مقامی لوگوں سےبیان لیے بغیر ہی جائے وقوعہ سےواپس روانہ ہوگئےتاہم ان سےتین عینی شاہدین نےپولیس کی مددسےرابطہ کیاہےان کےنام خفیہ رکھے جارہےہیں منگل کوانکے بیانات ریکارڈکیےجانے کا امکان ہے یہ بھی امکان ہے کہ جے آئی ٹی ارکان ان گواہوں کوکسی اورروزطلب کریں۔جے آئی ٹی نے پولیس سے کہاہے کہ ان گواہوں کے نام ابھی سامنے نہ لائےجائیں اور ان کوسیکیورٹی بھی فراہم کی جائے۔ذرائع کاکہنا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی اعجاز شاہ کی سربراہی میں جےآئی ٹی واقعےپرمختلف پہلوؤں سےتفتیش کر رہی ہےاورٹیم نےزیرِحراست سی ٹی ڈی اہلکاروں سے تفتیش کےعلاوہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر سے بھی معلومات حاصل کی ہیں جب کہ جے آئی ٹی نے آئی جی پنجاب کو پیش کی جانے والی سی ٹی ڈی رپورٹ کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا ہے۔جبکہ جے آئی ٹی ٹیم میں 2 نئے ممبر شامل کیے گئے ہیں جن میں ڈی ایس پی انویسٹیگیشن برانچ پنجاب خالد ابو بکر اور ایس ڈی پی او صدر ساہیوال فلک شیر شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ پنجاب پولیس اعجاز شاہ کو لگایا گیا ہے۔ حساس ادارہ آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی جے آئی ٹی کے ممبرز ہیں۔تفتیش کاروں کی جانب سے سی ٹی ڈی کا بھی ریکارڈ چیک کیا جائے گا کہ پولیس گاڑیاں اور اہلکار کس کی اجازت سے آپریشن کے لئے گئے، جاں بحق افراد کے رہائشی علاقوں میں محلے داروں کے بیانات بھی لیے جائیں گے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعہ کے حوالے سے تمام فوٹیج اور دیگر ریکارڈ بھی چیک کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ تیار کرکے وزیر اعلی پنجاب کو دی جائے گی جو اسے وزیراعظم عمران خان کو پیش کریں گے۔ ذرائع کاکہناہے کہ جے آئی ٹی نے وقوعہ کے روزکاسی ٹی ڈی اہلکاروں کاڈیوٹی روسٹربھی طلب کیاہے جس کے تحت وقوعہ کے روزجوبھی اہلکاران ڈیوٹی پر موجودتھے ان کے نام اور پتے معلوم کرناہے اس کے بعدان ارکان کوطلب کیاجائیگاعلاوہ ازیں ان اہلکاروں کوبھی طلب کیاجائیگاجن کے نام سامنے آئے ہیں ۔جے آئی ٹی نے سی ٹی ڈی کے کام کاطریقہ کاراور قواعدوضوابط بھی طلب کیے تھے جوکہ فراہم کردیے گئے تھے جن کاجائزہ لیاگیاہے ۔جس کے تحت اہلکاران کوکسی خاص شواہد کے بناکسی بھی ملزم کوبراہ راست گولی مارنے کی اجازت کے لیے اعلیٰ حکام سے رابطہ ضروری قرار دیاگیاہے اس ضمن میں جائزہ لیاجارہاہے کہ ان سیکیورٹی اہلکاروں کوکس نے حکم جاری کیاتھااور جس کے حکم کے تحت انھوں نے یہ انہتائی اقدام کیاہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنے طورپر ابتدائی رپورٹ بھی مرتب کرناشروع کردی ہے جوکہ آئندہ 48گھنٹوں میں اعلیٰ حکام کوپیش کیے جانے کاامکان ہے اس رپورٹ میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے لیے جاری کردہ ڈیوٹی روسٹراور وقوعہ کے روزڈیوٹی پر موجوداہلکاروں کی فہرست ،ان کے قواعدوضوابط ،عینی شاہدین کے ابتدائی بیانات ،ایف آئی آرزکے مطابق معاملات کی چھان بین سمیت دیگر امور شامل کیے جائیں گے ۔گولیوں کافرانزک معائنہ بھی کرایاجائیگااور اس کی رپورٹ بھی اس میں شامل کی جائیگی جس میں بتایاجائیگاکہ کار میں سوارلوگوں کی جانب سے کتنی گولیاں چلائی گئی تھیں اور کن کن ہتھیاروں سے کام لیاگیاتھااور جواب میں پولیس نے کتنی گولیاں چلائی تھیں اور کس حدتک چلانے کی ضرورت تھی اس کے ساتھ ساتھ وقوعے کے روزسی ٹی ڈی اہلکاروں کے موبائل فون کالز،دفتری کالوں کاریکارڈکابھی جائزہ لیے جانے کاامکان ہے اس کوبھی رپورٹ کاحصہ بنائے جانے کاامکان ہے اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں جے آئی ٹی ممبران اپنے اپنے تجربے کی بنیادپر کچھ تجزیہ بھی شامل کریں گے جس سے وقوعہ کوسمجھنے میں مددمل سکے گی اور ذمہ داروں کابھی تعین کرناآسان ہوگا۔اس ضمن میں سابق آئی جی طاہر عالم نے روزنامہ امت سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جوگولیاں چلائی ہیں وہ ضرورت سے زائد ہیں ،ملزمان پر کب اور کیسے گولی چلانی ہے اس بارے پولیس رولزخاموش ہیں تاہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبوں نے اپنے طورپر کچھ ضوابط مرتب کیے ہیں اور اس بارے تعزیرات پاکستان کی دفعات 96سے لے کر106تک رہنمائی فراہم کی گئی ہے یہ رہنمائی صرف پولیس سمیت اداروں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے تحت عام شہری بھی خود کی حفاظت کرسکتے ہیں ۔اہلکاران اپنی حفاظت کی حدتک فائرنگ کرسکتے تھے مگراس کے لیے بھی یہ جانناضروری ہوتاہے کہ ملزمان سے ان کوکس حدتک خطرہ ہے کیایہ ملزمان ان کوجان سے تونہیں ماردیں گے اگر کسی عام شہری پر کوئی دہشت گردی کاحملہ ہوتاہے توجوابی طورپر وہ بھی فائرنگ کرکے ان کومار سکتے ہیں ان پر اس فائرنگ کی کوئی بازپرس نہیں ہوگی ۔کسی نے آپ کومحبوس کررکھاہویاکسی نے اغواء کی کوشش کی ہوتب بھی آپ سمیت کوئی بھی عام شہری حفاظتی اقدام کرسکتاہے ۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 100میں بتایاگیاہے کہ کن حالات میں فورس استعمال کی جائیگی ۔البتہ یہ نہیں بتایاگیاکہ فورس کب اور کتنی تعدادمیں استعمال ہوگی اس کے لیے حالات کومدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کیاجاتاہے جہاں تک ساہیال واقعے کاتعلق ہے اگر پولیس کایہ بیان مان بھی لیاجائے کہ ملزم کی فائرنگ کے جواب میں فائرنگ کی گئی ہے توبھی اتنی گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہییں تھیں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تین سے چار گولیاں وہ بھی ایسی جگہ ماری جاتیں کہ جس سے دوسرے لوگوں کی جان بچائی جاسکتی۔ انھوں نے کہاکہ پولیس نے جوکام کرناتھاکرلیااب جے آئی ٹی جائزہ لے گی کہ انھوں نے کس حدتک اپنے قواعدوضوابط کوفالوکیاہے ظاہری سی بات ہے کہ انھیں اگر معلومات ملی بھی ہوں گی توانھوں نے اس کارروائی کے لیے کسی سے اجازت لی ہوگی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More