پارلیمان میں اپوزیشن کا ساہیوال واقعہ کی شفاف تحقیقات کامطالبہ
اسلام آباد (نمائندہ امت) پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں ساہیوال واقعہ کی شفاف تحقیقات کامطالبہ کیاگیاہے،قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کہاہے کہ جے آئی ٹی کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جبکہوزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کا جواب حکومت کو دینا پڑے گا اور ہم دیں گے ،مجھے مستعفی بھی ہونا پڑا تو ملوث افراد کو مثال بناکر چھوڑیں گے-قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ شہریارآفرید ی نے کہا کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کو پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال پر پوری قوم آبدیدہ ہے،سب کو تشویش ہے کہ پاکستان اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا ؟،اس واقعے پر اسی وقت جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی جس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی ۔شہریار آفریدی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد بیشک پارلیمانی کمیٹی بنا دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ فوجداری نظام موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا ،18ویں ترمیم کہتی ہے یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ عدالتی نظام کے باعث فوجی عدالتیں بنانا پڑتی ہیں ،الزامات در الزامات سے مسئلے کا دیر پا حل نہیں نکلے گا ۔ادھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز کا کہنا تھا کہ افسوسناک واقعہ کے بعد حکومت نے کئی پینترے بدلے۔ پہلے کہا گیا کہ مرنے والے دہشتگرد تھے، پھر کہا گیا کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے لیکن جس طرح سے نہتے لوگوں پر ظلم کا پہاڑ توڑا گیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ جس طرح سابق حکومت میں ماڈل ٹاؤن اور قصور واقعے پر عمران خان نے سیاست چمکائی، ہم اس طرح اس واقعے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے تاہم جس طریقے سے ظلم اور زیادتی کی گئی شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو۔انہوں نے کہا کہ اس اندوہناک واقعے پر ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن وزیراعظم عمران خان نے چوبیس گھنٹے بعد صرف ایک ٹویٹ کی۔ شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کو سانحہ ساہیوال پر عوام کو جواب دینا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم دھرنا نہیں دیں گے لیکن اصل حقائق سامنے آنے تک ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔دریں اثناوزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی سانحہ ساہیوال کے حوالے سے تحریک التوا منظور کرلی گئی۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ ایوان کی معمول کی کارروائی ملتوی کرکے سانحہ ساہیوال پر بحث کرائی جائے۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد نے اپوزیشن لیڈر کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ ساہیوال واقعہ پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے۔ انہوں نے ایوان کی معمول کی کارروائی ملتوی کرنے کیلئے تحریک پیش کردی جو متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے سانحہ ساہیوال پر حکومتی موقف کو مسترد کر دیا ہے اورشفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہو ئے کہا ہے کہ فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصور وار غلط اطلاع دینے والے ہیں اور اگر معاملہ مشکوک تھا تو اطلاع دینے والوں سے متعلق پردہ ہٹا یا جا ئے سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے سا ہیوا ل کے وا قعہ پر شد ید احتجاج کیا اور حکومتی موقف کو مسترد کردیا۔قائد ایوان شبلی فراز نے وا قعہ پر کہا کہ ساہیوال واقعے سے پوری قوم دُکھی ہے، حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے جو دو دن میں رپورٹ دے گی ایڈوائزری کمیٹی میں اس حوالے سے باتیں طے ہوئی تھیں لیکن ہم ایسی بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ ہاؤس کا بزنس نہیں کر سکتے، اس ایوان کو قواعد و ضوابط کے تحت چلنا ہو گا اورساہیوال سانحے پر لازمی بات کرنی چاہیے۔شبلی فراز کے اس بیان پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور سانحہ ساہیوال پر ایوان میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپوزیشن کا مطالبہ مان لیا اور اس پر بحث شروع ہوئی مسلم لیگ نون کے رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بعض واقعات فوری توجہ طلب ہوتے ہیں اور اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو آج ہی زیر بحث لایا جائے۔ اتنے بڑے سانحات پر بھی اگر بات نہیں کر سکتے ہیں تو پھر ہمارا کیا فائدہ ہے ؟راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سانحہ ساہیوال افسوسناک اور انتہائی اہم معاملہ ہے۔ پولیس اہلکاروں نے گاڑی کے شیشے سیاہ بتائے جب کہ ٹی وی چینلز نے اس کے برعکس بتایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو تو بات کرنا ہی نہیں آتی جب تک ان کے کان میں کچھ ڈال نہ دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہر معاملے پر جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ گاڑی میں ایک دہشت گرد موجود تھا، اب جو بھی اس واقعے میں ملوث ہے اس کو سزا ملنی چاہیےپاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے سانحہ ساہیوال پر حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ساہیوال پر مسلسل موقف تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن اب یہ کیمرے کی زد میں آگئے ہیں۔یہ واقعہ تو منصوبہ بندی کے تحت تھا اور پنجاب حکومت نے ان لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا اوراگر دہشت گرد تھے تو کیا ان کے خلاف گولیاں چلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسے واقعات پر جے آئی ٹی بنتے نہیں دیکھی اور اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم بچوں کے ساتھ باہر نکلیں یا نہیں، راؤ انوار ہو یا کوئی اور انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، ماورائے عدالت قتل بھی رکنے چاہئیں۔پیپلزپارٹی کی سینیٹر نے کہا کہ یہ ہمیں منظور نہیں، معاملے کو کور اپ کیے جانے کی بو آرہی ہے اور یہ معاملہ مشکوک تھا تو پردہ ہٹائیں، ہم باہر نکلیں تو کیا ایک دہشت گرد کی وجہ سے ہمیں بھی گولیاں ماردی جائیں گی انہوں نے کہا کہ معاملے سے متعلق کل تک جواب دیا جائے۔جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سانحہ ساہیوال انتہائی افسوس ناک سانحہ ہے، کون سے انٹیلی جنس ادارے تھے جنہوں نے غلط اطلاع دی۔فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصور وار غلط اطلاع دینے والے ہیں، اگر وہ دہشت گرد تھے بھی تو کیا اداروں کو اس طرح سڑکوں پر گولیاں چلانے کا حق ہے، اگر ہے تو تو پھر کیا عدالتوں کو تالے لگائے جائیں سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ پولیس مقابلوں کا آڈٹ کرایا جائے۔خیال رہے کہ سانحہ ساہیوال پر قومی اسمبلی میں بھی بحث کی گئی جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز اس واقعے پر تحریک التوا جمع کرائی تھی۔