یہ لڑکپن کے دور کی بات ہے کہ میں نے پنجابی فلم ’’ماں پتر‘‘ دیکھی تھی۔ یہ ایک فارمولا گسی پٹی کہانی پر مشتمل روایتی پنجابی فلم تھی۔ مگر باکس آفس پر انتہائی شاندار اور کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ اداکار رنگیلا کی عمدہ کامیڈی ایکٹنگ تھی۔ رنگیلا پاکستانی فلم انڈسٹری کا سپر اسٹار ایکٹر تھا۔ جیسی اداکاری اور ڈائیلاک ڈلیوری رنگیلا کے پاس تھی، آج تک فلمی تاریخ میں کسی کو حاصل نہ ہو سکی۔ اس کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات اسی کا خاصہ تھے۔ اس موضوع پر کسی اور تحریر میں، میں اپنی ’’ریسرچ اِن رنگیلا‘‘ آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی، فلم ’’ماں پتر‘‘ کی۔ اس فلم کی کامیابی اور عوامی پذیرائی کی وجہ رنگیلا کا ایک مشہور زمانہ ڈائیلاک تھا۔ رنگیلا نے اس فلم میں ایک موالی کا کردار ادا کیا تھا۔ جب چرس کے کش اس کے پھیپھڑوں کو نشے سے بھر کر دماغ کو مست کرتے تو رنگیلا کہتا: ’’کھچا کھچ تے ڈزا ذز… بستہ ب … اوئے پولیس مقابلہ تے لتاں ونگیاں‘‘ میرا دعویٰ ہے کہ اس مکالمے کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں نہیں کیا جاسکتا۔ نشے میں دھت یہ ڈائیلاک بول کر رنگیلا جو حرکات و سکنات کرتا، وہ ضابطۂ تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں۔ صرف پردئہ سیمیں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ آج کل پاکستانی سیاست بھی کھچا کھچ تے ڈزا ڈز کے ڈائیلاک پر چل رہی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل میں یہ عرض کردوں کہ ہم نے ہی فلم بمبینو سینما میں بلیک میں ٹکٹ خرید کر دیکھی تھی۔ بمبینو سینما کا بھی پاکستانی سیاست کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یعنی مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے… ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اور فلم کے آغاز پر یہ شعر بھی گونجتا تھا کہ ’’نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن … وہ شمع کیا بھجے جسے روشن خدا کرے…‘‘
اس ساری تمہید کا تعلق پاکستان کے موجودہ سیاسی تماشے سے ہے۔ آپ مشاہدے کی نظریں تیز رکھئے… پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آج کل کھچا کھچ تے ڈزا ڈز کا ڈائیلاک ہٹ ہو رہا ہے۔ خود فریبی، خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے ریاست چل رہی ہے۔ بڑھکیں، لافے اور دعوے ہو رہے ہیں۔ کرتار پور کا لانگاہ کھول کر آپ نے کمال کردیا ہے۔ دھوتی کو پھاڑ کر رومال کردیا ہے۔ ڈالر ایک سو چار روپے سے اڑ کر ایک سو چالیس کا ہوگیا ہے۔ ادائیگیوں کا توازن الٹ پلٹ کر رہ گیا ہے۔ خزانہ خالی ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور روز مرہ کی اشیاء نایاب ہیں۔ پچاس لاکھ مکانات کا خیالی پلائو کی دیگ چڑھا کر قائم شدہ مکانات اور دکانیں ڈھائی جا رہی ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی کے ہوائی قلعے پر کمنڈ ڈالنے سے پہلے ہی لگے لگائے روزگار مہیا کرنے والی تعمیراتی صنعت کو حالت نزع میں دھکیلا جا رہا ہے۔ زراعت سے منسلکہ محنت کشوں کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔
کیا حکومت اور کیا اپوزیشن، دونوں ہی رنگیلا کا ڈائیلاک بول رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو تڑیاں لگانے کا جمہوری سرکس چل رہا ہے۔ کھربوں ڈالرز جو یہود، وہنود و نصاریٰ کی تحویل میں دے رکھے ہیں، ان کی واپسی کے لئے نہ تو قانون سازی ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی ٹھوس پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ سیاسی پہلوانوں کا دعویٰ ہے کہ فروری میں بسنت کا تہوار شروع ہوتے ہی سیاحت کی انڈسٹری بوم پر چلی جائے گی۔ دھاتی ڈوریوں سے گلے کاٹنے کی روک تھام کی جائے گی۔ دھت تیرے کی پییا ساڈھی کر گیا نیند حرام… مذکورہ فلم کے ایک منظر میں رنگیلا کو چند سازشی عناصر مقدار سے زیادہ چرس کا ایک لمبا سوٹا لگوا کر فلم کے ولن سے بھڑا دیتے ہیں۔ نشے میں بد مست ہو کر رنگیلا اس کی زبردست پھینٹی لگاتا ہے۔ ولن کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑتی ہے۔ تاہم جب رنگیلے کا نشہ اترتا ہے اور ولن اپنے چمچوں سے اس کو جوابی کٹ لگواتا ہے تو رنگیلے کا جوڑ جوڑ پھوڑا بن جاتا ہے۔
آپ غور فرمایئے کہ اقتدار، کرسی اور عہدے کے نشے میں چور ہم سب رنگیلے کی طرح کھچا کھج ڈزا ذز کرتے ہیں اور جاہ و منصب سے محروم ہونے کے بعد اپنی چوٹیں سہلاتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ نشہ کسی بھی نوعیت کا ہو، کم ظرفوں کی حقیقت کھول دیتا ہے اور وہ اپنی اصلیت بھول کر اناپ شناب بکتے ہیں اور الل ٹپ حرکات کرتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ایک چوہا اتفاق سے ایک ایسے مرتبان میں گرگیا، جو ولایتی اور خالص شراب سے بھرا ہوا تھا۔ رات بھر وہ اس میں غوطے لگاتا رہا۔ صبح کے وقت چھلانگ لگا کر مرتبان سے باہر نکل آیا اور سر کے بل کھڑے ہو کر للکارنے لگا کہ ’’اوئے! بلی کہاں ہے؟‘‘
قارئین کرام! ہمارے معاشرے میں کم ظرف چوہوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب لاف گزاف کے مرتبان میں ڈبکیاں مار کر ایک دوسرے کے خلاف آستینیں چڑھائے کھچا کھچ تے ڈزا ڈز کی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ عوام بے گھر، بے در، اور بے روزگار ہو رہے ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں کہ ’’خدایا! ہمیں ان چوہوں سے نجات عطا فرما اور ہماری زندگیوں کو آسان بنادے۔‘‘ آمین۔
Next Post