اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ذاتی معاملات عدالت میں نہ لائے جائیں۔ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ نہ اچھالی جائے۔ پردہ پڑا ہوا ہے تو اسے نہ اٹھایا جائے۔ شریعت کا حکم ہے کہ دوسروں کے عیبوں کو چھپاؤ۔ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ایچ کے تحت اگر کسی شخص کا کردار ٹھیک نہ ہو تو غلط کردار کی وجہ سے اس کی نااہلی کے لئے اس کا دو سال تک سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔ فاضل عدالت نے متنبہ کیا کہ آئندہ ایسی درخواست آئی تو عدالت جرمانہ کرے گی۔ حافظ احتشام احمد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔ درخواست گزار حافظ احتشام احمد نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کی عدالت کا ایک فیصلہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ہی ٹیریان وائٹ کے باپ ہیں۔ عمران خان نے اس فیصلے کو کبھی چیلنج کیا نہ تردید کی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا ڈیکلریشن جمع کرایا اور ٹیریان وائٹ کو اپنی بیٹی ظاہر نہیں کیا، اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ لہٰذا آئین کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت انہیں اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ عمران خان اگر قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں تو وہ ملک کے وزیر اعظم کیسے بن سکتے ہیں۔ پاکستان کا آئین اور قانون اس قدر مظلوم ہے کہ مقتدر و متمول طبقوں کے لئے اس کی توضیح و تشریح ایک انداز میں کی جاتی ہے تو عوام کے لئے اس کا معیار بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ آئین کے تحت ایسا کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں، جو دیگر شرائط کے علاوہ اس آرٹیکل کی شق ڈی کے تحت اچھے کردار کا حامل نہ ہو۔ اسلامی احکامات سے انحراف کی شہرت رکھتا ہو۔ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو۔ اسلام کے عائد کردہ فرائض کی پابندی نہ کرے اور گناہ کبیرہ سے اجتناب نہ کرتا ہو۔ یوں تو ان شرائط پر ارکان پارلیمان کی بڑی اکثریت پوری نہیں اترتی۔ اس کے باوجود وہ اپنے اختیارات اور مال و دولت کا استعمال کرکے پارلیمنٹ میں پہنچتے اور عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بطور وکیل اس وقت بڑا بنیادی کردار ادا کیا تھا جب جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ساٹھ کے قریب ججوں کو غیر قانونی طور پر برطرف کیا تھا۔ لہٰذا اہل وطن کو ان سے توقع تھی کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی روشنی میں عمران خان کے خلاف درخواست کی سماعت کریں گے۔ ٹریان وائٹ نامی خاتون کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ عمران خان کی جائز یا ناجائز بیٹی ہے۔ اس کی والدہ سیتا وائٹ کوکین کا نشہ کرتی تھی، جبکہ عمران خان پر بھی یہی الزام ہے۔ اس کے علاوہ ان کے جوا میں ملوث ہونے کے ثبوت و شواہد بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں گردش کرتے رہے ہیں۔
فاضل عدالت عالیہ نے اسلام کا یہ بنیادی اصول تو بیان کردیا ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ نہ اچھالو اور شریعت کا حکم ہے کہ دوسروں کے عیبوں کو چھپائو۔ فاضل چیف جسٹس اطہر من اللہ یقینا اس حقیقت سے لاعلم نہیں ہوں گے کہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کا حکم عام شہریوں کے لئے ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہیں اور گھروں میں نہ جھانکتے پھریں، لیکن جہاں کسی شخص کے عوامی نمائندہ بننے کی اہلیت کا معاملہ ہو تو اس کے قوم پر مسلط ہونے سے پہلے اس کے اخلاق و کردار کی پوری طرح چھان بین کرلی جائے۔ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت بھی یہ پابندیاں لاحق ہیں، لیکن اس کی آج تک کسی نے پروا نہیں کی تو اب کون کرے گا۔ حیرت انگیز طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی اس کا کوئی خیال نہیں رکھا، بلکہ الٹا عیبوں کو چھپانے کا شرعی اصول بیان کرکے عمران خان کے خلاف نااہلی کی درخواست خارج کر دی۔ اسلام کا بنیادی نظریۂ انتخاب یہ ہے کہ جو شخص کسی عہدے کا خود طالب ہو، وہ اسی وقت نااہل قرار پاجاتا ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ واللہ ہم اپنی حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے، جو اس کا طالب اور حریص ہو۔ عمران خان کے دیگر عیوب و نقائص کے علاوہ یہ بات روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ بائیس برسوں سے اقتدار کے حصول کی جدوجہد کر رہے تھے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق امت کے لئے بہترین امیر وہ ہے جو احکام قرآنی نافذ کرنے کی علمی، ذہنی اور انتظامی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس کا کردار اللہ سے محبت کا آئینہ دار ہو اور جس کی سیرت میں اللہ و رسولؐ کی مطلوبہ صفات بدرجہ اتم موجود ہوں۔ سربراہ مملکت ایک طرف اللہ کے سامنے اور دوسری طرف بندگان خدا کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا صرف دعویٰ کافی نہیں۔ اس جانب تاحال کوئی پیشرفت نہ ہونے کا واضح مقصد ہے کہ یہ محض عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک حربہ ہے۔ عمران خان کی علمی، ذہنی اور انتظامی صلاحیت کا اندازہ ان کے دور اقتدار کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے ہوچکا ہے کہ غریبوں کو معمولی ریلیف بھی نہیں ملا، قوم کو مزید قرضوں میں ڈبویا جارہا ہے اور لوگوں کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے مسلسل کچلا جا رہا ہے۔ مسلم مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کا کردار کسی طور بھی اللہ سے محبت کا آئینہ دار ہے اور نہ ان کی سیرت میں اللہ و رسولؐ کی مطلوبہ صفات موجود ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے جوابدہ نظر آتے ہیں نہ خلق خدا کی انہیں کوئی پروا ہے۔ ان تمام نکات کو پیش نظر رکھا جائے تو عمران خان کی نجی زندگی بھی زیر بحث آئے گی اور ان کے اقتدار کے فیصلے، احکام اور اقدامات بھی۔ ٭
Prev Post
Next Post