حضرت انسؓ فرماتے ہیں: بنی عبد المطلب میں جب کوئی بچہ زبان کھولنے کے قابل ہو جاتا تو اس کو آپؐ یہ آیت سکھا دیتے تھے:
ترجمہ: ’’اور خدا ہی تو عالیشان ہے، سب سے بڑا۔‘‘
اسی طرح سورۂ مدثر میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’اور اپنے رب کی بڑھائی بیان کرو۔‘‘
حضور اکرمؐ کی مذکورہ سنت کا ایک تاریخی پس منظر اور سبب ہے جو کچھ اس طرح ہے۔
اذان میں بھی جو سب سے پہلے حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ہے اور اس حقیقت کو ایک اذان میں چھ بار بیان کیا گیا ہے۔ گویا پانچ وقت کی اذان میں تیس بار ’’تکبیر کی صدا‘‘ بلند ہوتی ہے اور اگر اقامت کو بھی شامل کرلیں تو تعداد ساٹھ … تک پہنچ جائے گی اور اگر پانچ وقت کی نماز میں فرضوں، سنتوں، وتر اور نوافل کے قیام اور قعود وغیرہ کے موقع پر کہی جانے والی تکبیرات کو بھی شمار کر لیں تو تعداد دو سو چھیانوے تک پہنچ جائے گی اور چونکہ ہمیں ترغیب دی گئی ہے کہ ہر نماز کے بعد چونتیس بار تکبیر کہا کرو تو اگر ہم اس کو بھی گن لیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک نمازی مسلمان اپنے عام معمول میں اہتمام سے اذان کا جواب دے اور اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا اعمال کا بھی اہتمام کرے تو دن رات میں تقریباً چار سو چھیاسٹھ مرتبہ تکبیر کہتا ہے۔
اور اگر وہ صبح و شام تسبیحات بھی کرتا ہے تو یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اذکار تو اور بھی ہیں، تسبیح بھی ذکر ہے اور تحمید بھی… تو آخر تکبیر میں کیا بات تھی کہ اسے بار بار ورد زبان کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟
اذان اور نماز میں تو آپ سن ہی چکے ہیں، حج میں دیکھیں تو سب سے زیادہ تکبیر کہی جاتی ہے۔
عیدین میں دیکھیں تو سب سے زیادہ تکبیر کہی جاتی ہے۔
میدان جہاد میں بھی نعرۂ تکبیر بلند کیا جاتا ہے۔
بلندیوں پر بھی تکبیر کہی جاتی ہے۔
بچے کے کان میں اذان و اقامت، جانور ذبح کرتے وقت اور نماز جنازہ کی تکبیر میں بھی یہی کلمہ کہا جاتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان کمزور ہے، اس کی سوچ بھی کمزور ہے، اس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ مادی چیزوں سے متاثر ہو کر ان کو دیوتا مان لیتا ہے، شریک خدا مان لیتا ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ ضرب اسی بڑائی کے عقیدے اور تصور پر لگائی گئی ہے اور زبان سے بار بار خدائی کی بڑائی کہلوا کر یہ بات دل میں بٹھا دی گئی کہ سب سے زیادہ بڑا اور سب سے زیادہ عظمت و کبریائی کا مستحق صرف اور صرف رب تعالیٰ ہے۔ جس کا ایک نام ’’المتکبر‘‘ اور ایک نام ’’الکبیر‘‘ ہے۔ اس کے سامنے سب کی بزرگیاں اور بڑوں کی بڑائیاں ہیچ ہیں۔
Prev Post
Next Post