صحابہ کرامؓ سے تحصیلِ علم:
محمد بن سیرینؒ کی پیدائش امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت سے دو سال پہلے ہوئی، ان کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جس میں تقویٰ وپاکیز گی کی خوشبو گھر کے چاروں طرف مشک کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ یعنی اس گھر میں نمازوں کا اہتمام، تلاوت، تسبیح، تہجد کا اہتمام، بڑوں کا احترام،بچوں پر شفقت اور گناہوں سے بچنے اور بچانے کا ماحول بنا ہوا تھا۔
جب یہ سعادت مند ہونہار بچہ جوانی کی منزل کو پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ حضور اکرمؐ کی مسجد، صحابہ کرامؓ کی جماعت کے باقی افراد اور بڑے بڑے تابعین سے بھری ہوئی ہے، اس مبارک محفل میں حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عمران بن حصینؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن زبیرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ موجود ہیں، تو ان عظیم اساتذہ کو دیکھ کر اس بچے نے علم حاصل کرنے کی تمنا اور محنت و کوشش اس طرح کی جس طرح کوئی پیاسا میٹھا پانی پینے کی تمنا کرتا ہے اور ان کے قرآنی علوم، دینی سمجھ اور حدیث رسولؐ سے خوب سیراب ہوئے، جس سے ان کی عقل حکمت و علم سے اور دل تقویٰ وپاگیز گی سے بھر گیا، پھر یہ خاندان اپنے ہونہار نوجوان کو اپنے ساتھ لے کر بصرہ منتقل ہوگیا اور وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی۔
بصرہ اسلامی معاشرہ کی جیتی جاگتی تصویر :
بصرہ شہر ان دنوں نیا نیا آباد ہوا تھا، مسلمانوں نے امیرالمؤمنین حضرت فاروق اعظمؓ کی خلافت کے آخری دنوں میں اس شہر کو نئے طریقے سے آباد کیا تھا۔ یہ شہر مسلمانوں کے لیے کئی وجوہات سے خصوصیت کا درجہ رکھتا تھا اور فارس وعراق کے وہ کفار جو خدا کے دین میں داخل ہو کر اسلام قبول کر لیتے تھے، ان کے لیے یہ تعلیم وتربیت کامرکز بھی تھا۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس زمانے میں سیکھنے والا یا سیکھانے والا تھا، ہر ایک اپنے ذمّے لازم سمجھتا تھا کہ کافروں پر ایسی محنت کرنی ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس کو بھی داعی بناتے تھے کہ تم اوروں پر محنت کرو کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہوجائیں، اس محنت کی برکت سے مسلمان بھی پورے پورے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوتے تھے اور ان کے اخلاق و اعمال کو دیکھ کر کفار بھی اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔ یہ شہر بصرہ اسلامی معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر تھا، یعنی مسلمان دنیوی کام بھی بہت اچھی طرح سلیقے کے ساتھ کرتے تھے اور آخرت کے کاموں کے لیے بھی ایسے تیار ہوتے تھے جیسے آج کا دن دنیا کا آخری دن ہے اور گویا کل ان کے پاس ملک الموت آجائے گا۔
محمد بن سیرینؒ نے بصرہ میں اپنی زندگی کودو حصوں میں برابر برابر تقسیم فرما دیا تھا۔ دن کا آدھا حصہ علم کو پھیلانے اور عبادات کے لیے متعین کردیا تھا اور باقی آدھا حصہ کام کاج و تجارت کے لیے متعین کر دیا تھا۔ جب طلوعِ فجر کا وقت ہوتا اور دنیا اپنے رب کے نور سے چمک اٹھتی، یہ بصرہ کی مسجد کا رخ کرتے، وہاں خود علم حاصل کرتے اور دوسروں کو علم سکھاتے تھے۔ جب دن چڑھ جاتا تو مسجد سے سیدھے بازار جاتے، وہاں خرید و فروخت کرتے، جب رات دبیا پر اپنا اندھیرا پھیلا دیتی، تو یہ اپنے گھر کی مسجد کے محراب میں تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور لمبی لمبی رکعتیں پڑھتے تھے اور اس میں قرآن کی تلاوت بہترین لہجہ اور تجوید کے ساتھ فرماتے تھے، اور ’’رحمن’’و’’رحیم‘‘ کے خوف سے دل اور انکھوں سے آنسو بہاتے، روتے روتے ان کی ہچکی بندھ جاتی، جس سے گھر والوں اور قریبی پڑوسیوں کی خطرہ لاحق ہو جاتا، کہ کہیں یہ! اسی آہ وزاری میں خدا کو پیارے نہ ہو جائیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post