حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو یہ بات پہنچی کہ ان کے بیٹے نے ایک انگھوٹی بنائی ہے، جس کی قیمت ہزاروں درہم ہے، تو امیر المؤمنین نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے انگھوٹی ہزاروں درہم کی بنائی ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو اس انگھوٹی کو بیچ دو اور اس کی قیمت سے ہزار بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اس کے بدلے ایک سادی لوہے کی انگھوٹی بنا لو اور اس انگھوٹی پر یہ عبارت لکھ دو:
ترجمہ: ’’خدا جل جلا لہ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے آپ کو پہچان لے۔‘‘
( شرح اسماء الحسنیٰ للقشیری: 123)
حضرت ابن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عثمانؓ کی انگوٹھی پر کیا عبارت نقش تھی؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ انہوں نے پورے صدق نیت سے اپنی انگوٹھی پر یہ جملہ نقش کرایا تھا:
’’خدایا!مجھے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرما‘‘
پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم انہیں سعادت کی زندگی بھی ملی اور شہادت کی موت بھی۔‘‘ (مستدرک حاکم، ص 106 ج 3 کتاب معرفتہ الصحابہؓ، حیدر آباد)
مہلب وزیر کا ایک بیٹا ایک دن حضرت مالک بن دینارؒ کے قریب سے فخر اور غرور کی چال چلتا ہوا گزرا تو مالک بن دینارؒ نے اسے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اے لڑکے! کیا ہی اچھا ہو اگر تم تکبر چھوڑ دو۔‘‘
وزیر کا بیٹا کہنے لگا: ’’کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘
تو انہوں نے جواب دیا:
’’کیوں نہیں، میں تو تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ تمہاری ابتدا تو ایک ناپاک نطفہ ہے اور تمہاری انتہا بدبو دار جسم ہے اور درمیانی حالت یہ ہے کہ نجاست اٹھائے پھرتے ہو۔‘‘
یہ سن کر اس لڑکے نے سر جھکا لیا اور آئندہ کے لئے توبہ کرلی۔ (المستطرف: 404/1)
تلبیہ پڑھتے وقت کی کیفیت
حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علی بن الحسینؒ، نے حج کے ارادے سے احرام باندھا اور سواری پر سوار ہوئے تو آپؒ کا رنگ فق ہو گیا، سانس پھولنے لگی اور بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور لبیک نہیں کہی جا سکی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپؒ کیوں لبیک نہیں کہتے؟ تو کہا کہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں ’’لا لبیک ولا سعدیک‘‘ نہ کہہ دیا جائے، پھر جب لبیک کہا تو بے ہوش ہو گئے اور سواری سے گر پڑے اور حج پورا ہونے تک یہ بات برابر پیش آتی رہی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post