سن اُنیس سو چوراسی کا ذکر ہے۔ عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ دورئہ آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم نے بہت بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور شکست سے دوچار ہوئی۔ وطن واپسی پر کراچی ایئرپورٹ کے لائونچ میں پی ٹی وی کے نمائندے جعفر بلگرامی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ بتایئے کہ ’’ہماری ٹیم کو کیوں اتنی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘ عمران خان نے وہیلر دھکیلتے ہوئے جواب دیا کہ ’’برا کھیلے، بار گئے۔‘‘
آج تقریباً چونتیس سال کے نشیب و فراز اور بے شمار مد وجزر طے کرنے کے بعد عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور اپنی ٹیم کے ساتھ سیاست، معیشت اور معاشرت کے میدان میں پانچ سالہ ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ خود ان سے اور ان کی ٹیم سے نہ تو لائن اور لینتھ کے ساتھ بائولنگ ہو رہی ہے اور نہ وہ توجہ اور ارتکاز کے ساتھ بیٹنگ کر پا رہے ہیں۔ رن آئوٹ مسلسل مس ہو رہے ہیں۔ ان کی کابینہ کے وزراء مسلسل وائیڈ بالز کروا رہے ہیں اور بائونڈری لائن پر چوکے پر چوکا چھوڑ رہے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان ایک بار پھر وہی ریمارکس دے کر ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو جائیں گے کہ ’’برا کھیلے، ہار گئے‘‘۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کے غیر معیاری اور تھرڈ کلاس پرفارمنس کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہیں، جن کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور شکست کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں؟ پہلا عنصر یہ ہے کہ عمران خان کسی ہوم ورک اور پلاننگ کے بغیر سیاسی اور انتظامی میدان میں میچ کھیل رہے ہیں۔ تعمیر سے زیادہ تخریب اور توڑ پھوڑ کے کام زیادہ ہو رہے ہیں۔ انہیں رن کی اتنی جلدی ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کی کال پر کان نہیں دھر رہے ہیں۔ سیاست میں اعصاب پر قابو رکھ کر آہستہ آہستہ قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔ مگر عمران خان کو ہر چیز کی جلدی پڑی ہوئی ہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ:
مجھے اے دل تیری جلدی نے مارانہیں تقصیر اس دیر آشنا کی…
عمران خان کو سندھ کی حکومت گرانے کی جلدی ہے۔ انہیں اپنے تمام مخالفین کو جیل میں بند کر دینے کی بڑی جلدی ہے۔ انہیں پچیس برس پرانا اصغر خان کیس بند کرا دینے کی جلدی ہے۔ انہیں چلتے ہوئے منصوبے بند کرا کر پرانا حساب چکانے کی جلدی ہے۔ انہیں اسرائیل کے ساتھ عاشقانہ تعلقات قائم کرنے کی جلدی ہے۔ انہیںاپنے رفقاء اور اقرباء کو مالی فوائد پہنچانے کی جلدی ہے۔ در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا، جتنی دیر میں میرا لپٹا ہوا بستر کھلا کے مصداق کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جلد بازی میں بازی ہی پلٹ جائے اور پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں مہیا کرنے کا خواب چکنا چور ہو جائے۔
عمران خان کو ان کے خوشامدی مصاحبین ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ سنا رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں بتا رہا کہ پچاس لاکھ مکانات بنانا کوئی مذاق نہیں ہے۔ وہ تو بنے بنائے مکانات ملبہ بنانے میں تلے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ خود ان کا بنی گالہ میں ناجائز تعمیر محل ملبے کا ڈھیر بن جائے۔ آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی… شاعر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ حد سے زیادہ جور و ستم خوشنما نہیں… ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو…
عمران خان اور ان کی ناتجربہ کار پھسڈی ٹیم کی غیر معیاری اور خراب کارکردگی کے سبب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سخت معاشی بحران میں پھنس گیا ہے۔ چونکہ ملک میں رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کا شعبہ جمود کا شکار ہے۔ نیز دیگر صنعتوں کی ترقی کا پہیہ بھی جام ہے۔ اس لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو نئے اشتہارات کی مارکیٹ نہیں مل رہی۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گزشتہ کئی ماہ سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھی کروڑوں روپے کی ادائیگیاں روک رکھی ہیں۔ ان حالات میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کے کارکنان کو تنخواہیں ملنا بند ہوگئی ہیں۔ محنت کش کارکنان اور ان کے بال بچے نان نفقہ سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ غیرت مند سفید پوش شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
پاکستان میں زراعت اور تعمیراتی صنعت دو ایسے شعبے ہیں، جن پر ہماری برآمدات اور سمندر پار پاکستانی انحصار کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی بے ڈھپ اقتصادی اور انتظامی ٹیم کی سڑی ہوئی پرفارمنس نے ان دونوں شعبوں کا ستیاناس مار دیا ہے۔ کسان بے یار و مددگار سسک رہے ہیں۔ اور کنسٹرکشن کے شعبے پر سکرات طاری ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ترسیلات زر کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔
میں انہی صفحات پر لکھتارہا ہوں کہ بحریہ ٹائون پرائیویٹ لمیٹڈ عالمی سطح کا نمبر ون ہائوسنگ پروجیکٹس بنانے والا ادارہ ہے۔ اس کے منصوبوں کو سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار اور انوسٹمنٹ منسلک ہے۔ مگر اگست دو ہزار اٹھارہ کے بعد عمران خان کی انڈر 19 ٹیم کی انتہائی بری کارکردگی سے یہ ادارہ بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ کراچی، راولپنڈی اور لاہور کے بحریہ ٹائون کے منصوبے ہچکولے کھا رہے ہیں۔ یہاں کام کرنے، رہائش اختیار کرنے اور سرمایہ لگانے والوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ ہوگیا ہے۔ یہ عظیم الشان منصوبے وفاق پاکستان اور حکومت پنجاب اور سندھ کے لئے ریونیو جنریٹ کرنے کے زبردست ذرائع ہیں۔ مگر عرمان خان اور ان کی مفاد پرست ٹیم ان منصوبوں کو ملیامیٹ کرنے تلی ہوئی ہے۔ ماضی میں کسی نے کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو کسی کا مشورہ سنتی نہیں ہیں اور نواز شریف کسی کی بات سمجھتے نہیں ہیں۔‘‘ میری رائے میں عمران خان اور ان کے کاسہ لیسوں میں یہ دونوں میں خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ اس لئے بہت جلد آپ یہ سننے والے ہیں کہ ’’برا کھیلے، ہار گئے۔‘‘
٭٭٭٭٭
Next Post