ایک مشہور شخصیت

0

مطالعے کی عادت بھی ایک نشہ ہے اور نشہ بھی ایسا جو اتارے نہیں اترتا۔ بچپن میں ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں کتاب اور کتاب والوں کے چرچے صبح و شام کانوں میں پڑتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم پڑھنا سیکھا۔ نماز جماعت سے پڑھتے نہیں، پڑھوائے جاتے تھے۔ پاکستان بنا تو میری عمر کا تیرہواں سال تھا۔ 1948 عیسوی میں پاکستان آگئے۔ یہاں اس وقت نہ کوئی مدرسہ تھا، نہ لکھنے پڑھنے کا کوئی ماحول۔ مولانا احتشام الحق تھانویؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے ساتھ 14 اگست 1947ء سے پہلے ہی پاکستان آگئے تھے۔ انہوں نے جیکب لائنز میں قرآن کریم کا مکتب کھولا، یہاں قرآن کریم کا حفظ شروع کر دیا۔
وقت گزرتا گیا۔ آخر 1952ء میں راقم نے فارسی کا سب سے بڑا امتحان ’’مفتی فاضل‘‘ پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ یہ ہی راقم کے اندر چھپی ہوئی مطالعے کی خواہش پوری ہونے کا ذریعہ بن گیا۔ 1952ء سے آج تک یہ عادت جاری نہیں، بلکہ لپٹی ہوئی ہے۔ رات کو جب تک ایک ڈیڑھ گھنٹہ مطالعہ نہ کرلوں، نیند نہیں آتی۔ پہلے شعر و شاعری اردو اور فارسی کی کتابیں پڑھتے تھے، بلکہ اس سے پہلے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں رات کے تین چار بج جاتے تھے۔ والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیعؒ کی ڈانٹیں اور کبھی ماریں بھی پڑتی تھیں، مگر نشہ کسی نہ کسی طرح پورا ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ معاف فرمائے۔
روزنامہ امت سے تعلق قائم ہوا تو مطالعے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی عادت پڑ گئی، اب دو نشے ہو گئے۔ جس دن لکھنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی چیز گم ہوگئی ہے۔ روزنامہ امت سے میرا تعلق اس کی اشاعت کے روز اول سے ہے۔ لکھنے کی عادت کا نشہ قارئین کی خدمت میں ’’روشن جھروکے‘‘ پیش کرکے پورا کر لیتا ہوں۔ میری بعض تالیفات کا سہرا بھی روشن جھروکے اور روزنامہ امت کے سر ہے۔
یہ تمہید اس لئے ہے کہ آج کا موضوع ایک ایسی مشہور زمانہ شخصیت کے بعض پہلو پیش کرنا ہے۔ یہ شخصیت ہے حضرت سید سلیمان ندویؒ کی۔ چند روز پہلے مجھے ایک پیکٹ موصول ہوا۔ پیکٹ کھولا تو اس میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ کے چند کتابچے اور ایک ضخیم کتاب تھی، جو ان کے ایک خلیفے نے مجھے بھیج دی تھی۔ انہوں نے اپنا نام بھی ظاہر نہیں فرمایا۔ مطالعے کے لئے کتابوں کا ذخیرہ چاہئے۔ آج کل میں مطالعہ کا نشہ پرانی کتابوں سے جو کئی بار پڑھی ہوئی ہیں، پڑھ کر پورا کرتا ہوں، یہ کتابیں ملیں تو نشہ تازہ ہو گیا۔
کتب بینی اور قطب بینی:
اس کتاب کا نام ہے ’’صحبت اولیاء اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد‘‘ حضرت حکیمؒ صاحب نے بڑی کثرت کے ساتھ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات اور ان کی دیگر کتب سے ان کے مفید اقوال نقل فرمائے ہیں۔ ایک جگہ یہ واقعہ نقل فرمایا:
حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے سہارنپور کے علماء میں سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ کی کتابوں میں بڑی برکت ہے۔ اس برکت کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: حضرات! درس کی جو کتابیں آپ نے پڑھی ہیں، وہی میں نے بھی پڑھی ہیں، لیکن ایک نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہے کہ میں نے کتب بینی کے ساتھ قطب بینی بھی کی ہے۔ یعنی میں نے حاجی امداد اللہؒ صاحب مہاجر مکی، مولانا گنگوہیؒ اور حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتویؒ کی صحبت کا فیض پایا ہے۔ (صحبت اولیاء اللہ۔
ج۔ اول۔ ص۔ 121)
یہاں یہ وضاحت کردوں کہ مذکورہ بالا عبارت حضرت حکیم صاحبؒ نے بہت بے تکلفانہ الفاظ میں لکھی ہے، یہ ان ہی کا منصب تھا۔ اس لئے راقم نے حضرت تھانویؒ کے مزاج کے موافق اس عبارت کو اپنے الفاظ میں لکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں حضرت تھانویؒ کے مزاج سے مصنف کے مقابلے میں زیادہ واقف ہوں، بلکہ میرے قلم نے ادب کے تقاضے کے تحت مجبور ہو کر اس میں تسہیل کر دی ہے۔ آگے بھی حضرت سلیمان ندویؒ کے واقعے میں راقم یہ جسارت کرنے پر مجبور ہے۔
حضرت سید سلیمان ندویؒ:
’’علامہ سید سلیمان ندویؒ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے ’’صدقہ حضرت تھانویؒ سے بیعت ہوئے، ورنہ یہ تھانہ بھون کا مذاق اڑاتے تھے (یعنی علامہ ندویؒ)‘‘ حضرت حکیم صاحبؒ کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ ندویؒ کو حضرت تھانویؒ سے بیعت ہونے کے لئے حضرت مولانا ظفر عثمانیؒ نے لکھا ہوگا یا زبانی تحریک کی ہوگی، ورنہ یہ بات اہل علم جانتے ہیں کہ حضرت علامہ صاحبؒ علم و ادب کی دنیا کے تابندہ آفتاب تھے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ کے شاگرد تھے۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب سیرت النبیؐ کئی جلدوں میں نہایت مقبول ہے۔ بظاہر یہ درست نہیں معلوم ہوتا کہ وہ تھانہ بھون کی اہمیت سے واقف نہ ہوں۔ الحمدللہ راقم نے ان کی زیارت کی ہے۔ نہایت نورانی چہرہ اور صاحب وضع شخصیت کے مالک تھے۔ البتہ ندوہ کے مذاق و مزاج کا غلبہ ان پر رہا ہوگا۔ چنانچہ اسی واقعے میں آگے معلوم ہو گا کہ انہوں نے خود اپنے سابقہ علم کے بارے میں جو فرمایا، وہ خود ان کی بزرگی اور بڑائی کی دلیل ہے۔
حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی تحریک پر ’’فوراً تھانہ بھون پہنچ گئے اور وہاں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ صاحب اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ صاحب کے ساتھ ایک مجلس میں حضرت تھانویؒ کی صحبت اٹھائی۔‘‘ پھر علامہ نے فرمایا۔
’’آہ! جس علم پر ہم ناز کرتے تھے، آج معلوم ہوا کہ اصل علم تو اس بوریہ نشین کے پاس ہے۔ ہمارا علم ان کے سامنے گرد ہے، پھر روتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے یہ شعر پڑھے۔
جانے کس انداز سے تقریر کی
پھر نہ پہلا شبۂ باطل ہوا
آج ہی پایا مزہ قرآن میں
جیسے قرآن آج ہی نازل ہوا
’’پھر فرمایا کہ جس کی صحبت کو ہم حقیر سمجھتے تھے، جس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اے دنیا والو! آج سید سلمان ندوی ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ
جی بھر کر دیکھ لو! یہ جمالِ جہاں فروز
پھر یہ جمال نور دکھایا نہ جائے گا
چاہا خزانے تو تیری محفل کا ہر چراغ
جلتا رہے گا یونہی، بجھایا نہ جائے گا
(حوالہ مذکور۔ از مواعظ حسنہ نمبر 87، ص 35 تا37)
یہ واقعہ راقم نے خود حضرت تھانویؒ کے ملفوظات میں پڑھا ہے، وہاں حضرت علامہ کے یہ اشعار نقل نہیں فرمائے ہیں۔ حضرت حکیم اختر صاحبؒ کے مرشد اول حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوریؒ ہیں۔ شیخ ثانی حضرت مولانا ابرار الحق صاحبؒ اور آخری شیخ حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ ہیں۔
دل تو نہیں چاہتا کہ ان اکابر کے تذکرے میں یہ خاکسار و عاجز اپنا بھی کوئی ذکر کرے، لیکن الحمد للہ! مجھے یہ نعمت حاصل ہے کہ حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوریؒ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب (مفتی محمد شفیعؒ) سے ملاقات کیلئے لسبیلہ ہائوس والے مکان پر تشریف لائے تھے۔ کرتے کا گریبان چاک تھا۔ حضرت والد صاحبؒ نے حضرت پھولپوریؒ کے ہاتھ پر مجھے بیعت کرایا تھا۔ اگر مجھے غلط یاد نہیں ہے تو غالباً خود حضرت پھولپوریؒ نے والد صاحب سے فرمایا تھا کہ یہ لڑکا ہمیں دے دو۔ واللہ اعلم۔ مگر کہاں خاک کا ایک ذرہ ناچیز اور کہاں آفتاب علم۔ حضرت حکیم اختر صاحبؒ نے اپنے آپ کو مٹا کر اللہ کے ولی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بعد میں راقم نے حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحبؒ سے بیعت کا شرف حاصل کیا، مگر افسوس در افسوس کہ جو چیز مریدین اپنے شیوخ سے حاصل کرتے ہیں، راقم اس سے محروم رہا۔
مگر میں اس نعمت پر بھی حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں سے نام ہی کی سہی، ایک نسبت تو قائم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ ان اکابر کے زیر سایہ آخرت میں یہ نسبت ان کے پیچھے پیچھے مجھے جنت میں دھکیل دے۔ ان شاء اللہ۔
لنگڑے کا قلم:
حضرت حکیم اختر صاحبؒ نے صحبت کے اثر کے بارے میں کیا خوب مثال دی ہے۔ فرمایا:
’’دیکھو! لوگ دیسی آم کو لنگڑے کے آم کے ساتھ قلم لگاتے ہیں۔ لنگڑے آم کی اس صحبت سے دیسی آم لنگڑا آم بن جاتا ہے تو کیا ایک بے جان، بے حقیقت دیسی آم ذرا سی صحبت سے لنگڑا بن سکتا ہے تو کیا اللہ والے جس نے اپنا قلم اولیاء اللہ کے ساتھ لگالیا، اس کی صحبت میں اتنا اثر نہیں ہوگا کہ وہ ایک طالب کو اپنے جیسا بنا دے؟‘‘
’’جب دیسی آم کا نام بدل جاتا ہے، کام بدل جاتا ہے، اسی طرح اللہ والوں کی صحبت کی برکت سے غافل اور نافرمان دل اللہ والا دل ہو جاتا ہے۔‘‘
(حوالہ مذکور، ج اول، ص 71)
ہماری حالت یہ ہے کہ ’’او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رُسوا شدیم‘‘
واقعی طالبین کے لئے یہ مثال ایک خوش خبری ہے۔ مولانا رومیؒ نے اسی بات کو خوب فرمایا۔
یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
اولیاء اللہ کی ایک عرصہ صحبت سو سالہ ایسی اطاعت سے بہتر ہے، جو خالص اللہ کیلئے کی گئی ہو۔
(خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More