عوام سے صرف چھیننے کی پالیسی

0

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی پانچ ماہ کی حکومت میں دوسرے منی بجٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود تھے۔ اپوزیشن نے سخت شور شرابا کرتے ہوئے منی بجٹ کو مسترد کردیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ انہوں نے ’’مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی، گو نیازی، جھوٹا اور چندہ خور‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس دوران عمران خان اپنی نشست پر بیٹھے مسکراتے رہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ آپ کے نعروں سے عمران خان کہیں نہیں جائے گا۔ اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر بٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسپیکر نے خورشید شاہ کو بولنے کی اجازت نہیں دی تو حزب اختلاف کے ارکان بنچوں پر چڑھ گئے اور زبردست احتجاج کیا۔ موجودہ حکومت کے دوسرے منی بجٹ کے سلسلے میں اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ یہ منی بجٹ نہیں، بلکہ اصلاحات کا پیکیج ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہے پاکستان کے روایتی انداز میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے، جس میں ٹیکسوں میں رد وبدل کرکے عوام کو بہلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ منی بجٹ میں صنعت، زراعت اور سرمایہ کاری کیلئے بعض مراعات دی گئی ہیں۔ بڑی گاڑیوں، سگریٹ اور لگژری آئٹمز مہنگے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹیکس دہندگان (فائلرز)کیلئے بینک لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے، چھوٹے شادی ہالز کا ٹیکس بیس ہزار سے کم کرکے پانچ ہزار تک لانے اور متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے قرض حسنہ اسکیم کا بھی اعلان کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے موبائل فون پر تیس فیصد ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی ہے، جس کے مطابق اب سو روپے جمع کرانے پر صارف کو صرف ستر روپے کا بیلنس ملے گا۔ اگر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے دعوے کے مطابق ان کے پیش کردہ دوسرے منی بجٹ کو اصلاحات کا پیکیج تسلیم کرلیا جائے تو اس میں غریب عوام کیلئے ریلیف کا کوئی ایک نکتہ بھی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت نے بجلی، گیس، تیل کے نرخوں اور ٹیکسوں میں جو اضافہ کیا تھا، اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ غریبوں کیلئے بنیادی اشیائے ضرورت مثلاً آٹا، دال، چینی، خوردنی تیل اور سبزی کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں، تو اصلاحات کن کیلئے اور کیا ہوئیں؟ بڑی گاڑیاں، سامان تعیش اور سگریٹ جیسی اشیاء کتنی ہی مہنگی کر دی جائیں، انہیں استعمال کرنے والا طبقہ اس سے بھی زیادہ بوجھ سہنے کی سکت رکھتا ہے، کیونکہ وہ اضافی اخراجات کو اپنے اختیارات اور اثر و رسوخ سے وصول کرنے پر قادر ہے۔ بینکوں میں اپنی ہی رقوم کے لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ اس پر فائلرز اور نان فائلرز کا چکر چلانا عوام کو مزید چکرا دینے کے مترادف ہے۔ فائلرز یا ٹیکس دہندگان یقینا زیادہ آمدنی والے اکائونٹ ہولڈرز ہوتے ہیں، جبکہ نان فائلرز اپنی معمولی بجت کو بینکوں میں رکھ کر اسے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ فائلرز کو ودہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا اور غریبوں کو ضرورت کے تحت اپنی ہی جمع شدہ رقم سے پچاس ہزار روپے سے زائد رقم ایک وقت میں نکلوانے کیلئے ٹیکس وصول کرنا سفاکی کا شاہکار ہے۔ اس کی وجہ سے غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں میں بچت کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ اس سے قبل یہ خبر آچکی ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی وجہ سے بینک کھاتوں میں ستّر فیصد کمی ہو چکی ہے۔ منی بجٹ میں بقیہ لفظی ہیر ہیر پھیر کا ملک کے بائیس کروڑ عوام سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ انہیں آئندہ بھی مختلف حیلے بہانوں سے بے وقوف بنا کر لوٹا جاتا رہے گا اور یہ سب عام شہریوں کے مفاد اور اصلاح کے نام پر حسب سابق ہوتا رہے گا۔ ماہرین قانون و اقتصادی امور نے حالیہ منی بجٹ کو ٹیکس بجٹ قرار دے کر کہا ہے کہ اس کے ثمرات عوام تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ ان کی دلچسپی بجلی، پانی، روزگار، مہنگائی میں کمی، تنخواہوں میں اضافے اور دیگر سہولتوں کی فراہمی سے ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے کہ منی بجٹ میں عوام کو دھوکا دیا گیا ہے۔ یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔ دوسری جانب صنعت و تجارت سے وابستہ افراد نے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف اپنے نام اور دعوئوں کے مطابق ایسے اقدامات کرتی، جن سے عوام کوئی نمایاں اور بہتر تبدیلی محسوس کرتے تو نئے منی بجٹ یا اصلاحات پیکیج کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھتی۔ کاش موجودہ حکومت عوام سے صرف لیتے چلے جانے کے بجائے انہیں کچھ دینے کی پالیسی اپنائے تو اس کی مقبولیت کا تیزی سے گرتا ہوا گراف کہیں رکتا ہوا نظر آئے۔
نشے میں دھت افراد
نشے میں دھت ڈرائیور نے کراچی کے علاقے لیاری میں تیز رفتار کار راہگیروں پر چڑھا دی، جس کے نتیجے میں چار بچوں سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے۔ ڈرائیور شاہ میر نشے کی حالت میں تھا، جسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ سانحہ ساہیوال میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے جن افراد نے کار میں بیٹھے ہوئے چار افراد کو گولیوں سے بھون دیا تھا، ان کے بارے میں بھی ابتدائی طور پر یہی بتایا گیا کہ وہ نشے میں تھے۔ وطن عزیز میں سارا فساد نشے کا پیدا کردہ ہے۔ کسی کو اپنے اختیارات کا نشہ ہے تو کوئی دولت کے نشے سے مخمور۔ یہ افسوسناک حقیقت سب کو معلوم ہے کہ پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگ کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں۔ کوکین، شراب، بھنگ اور چرس جیسے نشے کے عادی افراد کی خبریں اکثر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ سرکاری محکموں میں پولیس کا شعبہ منشیات کی لت میں مبتلا اور اس کے فروغ میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے۔ رائو انور جیسے پولیس افسر ساڑھے چار سو افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیں تو اس کے پیچھے اختیارات اور شراب کا نشہ ہو سکتا ہے۔ قومی شاہراہوں پر چھوٹی بڑی گاڑیاں اور ٹرک ٹرالر چلانے والے کئی لوگ نشے میں دھت ہوتے ہیں۔ انسانی جانوں اور اخلاق کو تباہ کرنے والی اُم الخبائث کو پاکستان میں آج تک اس لئے ختم نہیں کیا جا سکا کہ جن کی یہ ذمہ داری ہے، وہ خود ہمہ وقت نشے میں ہوتے ہیں۔ ہوش میں آئیں تو شاید کبھی احساس ہو کہ وہ شرف انسانیت کے منافی اس لعنت کو جاری رکھ کر خود کو اور اپنی آئندہ نسلوں کے علاوہ ملک و قوم کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More