عباس ثاقب
بشن دیپ نے کہا۔ ’’تمہارا خیال درست ہے۔ وہ انتہائی رازداری سے اپنا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ ہوشیار پور میں اپنے ڈینٹل کلینک پر بھی باقاعدگی سے بیٹھتے ہیں۔ لیکن ان کا اصل مقصد پیسے کمانا نہیں ہے، بلکہ اس طرح انہیں میرے جیسے ہم خیال لوگوں سے ملاقات کا باآسانی موقع مل جاتا ہے، جو مریض بن کر جب چاہے ان کے کلینک پر آسکتے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’تو پھر ایسا کریں ناں کہ مجھے بھی مریض بنا کر ساتھ ہی لے جائیں۔ میں خود انہیں سمجھا دوں گا‘‘۔
بشن دیپ نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے یہ ابھی مناسب نہیں ہے۔ میں نے بتایا ناں کہ ڈاکٹر صاحب بہت محتاط رہ کر، رازداری سے اپنے معاملات آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ کی براہ راست آمد اور اتنے خطرناک معاملے پر گفتگو کی پیشکش سے وہ پریشان ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ میری طرف سے آپ کے قابل اعتبار ہونے کی یقین دہانی بھی فوراً قبول نہ کریں۔ میں ان سے پہلے ان کا عندیہ لوں گا، پھر اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اگلے ہی روز تمہیں لانے کی ہدایت کر دیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، آپ ڈاکٹر صاحب سے جاکر انہیں پورا معاملہ سمجھا کر ان کی رائے پوچھ لیں۔ تب تک ذاکر بھی بانیہال، کشمیر سے واپس آجائے گا‘‘۔
میں نے ظہیر کی جگہ ذاکر، اور کشتواڑ کی جگہ بانیہال کا فرضی نام جان بوجھ کر لیا تھا۔ کیونکہ میں معاملہ پوری طرح طے ہونے سے پہلے اپنے دوست اور اس کی مقدس جنگ کو خطرے میں ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
بشن دیپ نے میری بات سن کر کہا۔ ’’اچھا، تو تمہارے کشمیری دوست کا نام ذاکر ہے!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، وہ بانیہال اور ارد گرد کے علاقوں میں قابض ہندو فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کا مرکزی کردار ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ لوگ درجنوں ہندوستانی فوجیوں کو ٹھکانے لگا چکے ہیں اور اب وہ ان کے زیر قبضہ علاقوں میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ ذاکر نے بتایا ہے کہ اس کے مجاہد ساتھیوں کی تعداد اب دو درجن کے قریب ہو چکی ہے اور وہ لوگ جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں‘‘۔
بشن دیپ نے کہا۔ ’’اوہو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کشمیر میں آزادی کی جنگ اتنی زور پکڑ چکی ہے۔ تمہارا دوسست ذاکر تو بہت جیوٹ اور جانباز لگتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس نے بتایا ہے کہ انہوں نے بہت سی جانوں کی قربانی دے کر اپنی یہ مضبوط حیثیت بنائی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پورے علاقے کے لوگ ان کے ہم نظریہ ہیں اور ان مجاہدوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ اگر ہماری تحریک بھی اتنی زوردار جدوجہد کر رہی ہوتی تو آج خالصتان کے قیام کی مہم پورے پنجاب میں زور پکڑ چکی ہوتی‘‘۔
بشن دیپ نے قدرے کھسیائے ہوئے لہجے میں صفائی پیش کی۔ ’’خالصتان تحریک کے ہمدردوں اور حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ بس ہتھیار بند جتھے کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ دراصل کٹھ پتلی پنجاب سرکار خالصتان تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہے۔ کسی پر خالصہ نظریے کے پیروکار ہونے کا صرف شک بھی ہو جائے تو بغیر وارنٹ کے اسے اٹھالیا جاتا ہے اور پھر بغیر کسی عدالتی یا قانونی کارروائی کے اسے کال کوٹھری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ میں نے بتایا ناں ایسے خالصہ جوانوں کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’افسوس ہے، ایسا ظلم ہونے کے باوجود ہمارے بہت سے سکھ بھائی ہندوؤں کا غلام بنے رہنے پر راضی برضا ہیں؟‘‘۔
بشن دیپ نے کہا۔ ’’افسوس کی بات تو بے شک ہے، لیکن ہمارے لوگوں میں رفتہ رفتہ بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ واہگرو نے چاہا تو بہت جلدکشمیر کی طرح پنجاب میں بھی ہندو سرکار کے ظلم و زیادتی کا منہ توڑ جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا‘‘۔
میں نے بشن دیپ کو مزید شرمندہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور گفتگو کا رخ اصل موضوع کی طرف موڑ دیا۔ ’’بھائی بشن دیپ، میں چاہتا ہوں کہ آپ امر دیپ بھائی کو بھی ساتھ لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس جائیں۔ میرا خیال ہے آپ دونوں بھائیوں کی طرف سے میرے حوالے سے مثبت یقین دہانی پر وہ جلد مطمئن ہوجائیں گے‘‘۔
بشن دیپ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’میں تم سے متفق ہوں۔ یہ ٹرک روانہ کردوں، پھر ہم دونوں جاکر انہیں ساری بات بتاتے ہیں‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن وہاں تو سردار براہم دیپ سنگھ بھی براجمان ہیں۔ ان کے سامنے ہند سرکار سے ایسی بغاوت والی مشاورت ہم کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘۔
میری بات سن کر بشن دیپ بھی مسکرا دیا۔ ’’ہاں، پتا جی کے وہاں سے ٹلنے کا تو انتظار کرنا ہی پڑے گا۔ وہ تو ہماری ’’دیش دروہی‘‘ باتوں سے ہی پریشان ہوجاتے ہیں۔ چلیں، واپس حویلی پہنچ کر تمہارے کمرے میں محفل جمالیں گے۔ اسی بہانے تم سے تفصیلی گپ شپ کا بھی موقع مل جائے گا‘‘۔
اس دوران میں اس کا ایک ملازم ایک بڑے سے تھال میں ڈھیر سارے مالٹے بھی رکھ گیا تھا۔ ڈھیر سارا پسا کالا نمک بھی ساتھ تھا۔ بشن دیپ نہایت نفاست سے مالٹے چھیل کر اور پھانکیں بناکر مجھے کھلاتا رہا اور خود بھی رسمی طور پر ساتھ دیتا رہا۔ بالآخر میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ تبھی امر دیپ اور براہم دیپ بھی بیوپاری مہمانوں کو ساتھ لیے وہاں آگئے اور انہیں دونوں ٹرکوں میں سوار کراکے رخصت کر دیا۔
ان سے فارغ ہوکر بزرگ سردار میری طرف متوجہ ہوا اور نہایت گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا اور کئی دن لاپتا رہنے پر پیار بھری خفگی کا اظہار کیا۔ میں نے معذرت اور وہی طبع زاد عذر پیش کر دیئے، جو امر دیپ اور بشن دیپ کے سامنے پیش کر چکا تھا۔ گھر واپسی کے پیدل سفر کے دوران تینوں سردار بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ اس سال نہ صرف مالٹوں کی پیداوار اچھی ہوئی تھی، بلکہ اچھے داموں فروخت بھی ہوگئے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post