قطر میں جاری طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن مذاکرات میں مزید ایک دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔ افغان مصالحتی عمل کے لئے امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد جبہ و دستار بند طالبان وفد سے مذاکرات کر رہا ہے۔ ابتدا میں یہ ملاقات پیر سے منگل تک ہونی تھی، لیکن پہلے بدھ اور اس کے بعد جمعرات کو بھی بات چیت جاری رہی۔ باخبر ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد اور ان کے وفد کے ارکان اب بھی قطر میں ہیں، لہٰذا ضرورت پڑنے پر گفت و شنید جاری رہ سکتی ہے۔
اب طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر کو قطر میں سیاسی دفتر کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ ملا برادر کی کوشش ہو گی کہ وہ افغانستان میں گزشتہ سترہ سالوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی خاطر امریکہ سے امن مذاکرات کی سربراہی کریں گے۔ برادر کو سن دو ہزار دس میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم افغان امن عمل کی خاطر گزشتہ برس اکتوبر میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ طالبان کے کچھ اعلیٰ رہنماؤں نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ملا برادر کو قطر میں سیاسی دفتر کا سربراہ اس لیے بنایا گیا ہے، کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ امن مذاکرات میں طالبان کے اعلیٰ رہنما شریک ہوں۔ اطلاعات ہیں کہ ملا برادر جلد ہی قطر روانہ ہو جائیں گے۔
صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان وفد اور امریکی نمائندے زلمے خیل زاد کے مابین بات چیت بہت خوشگوار ماحول میں ہو رہی ہے اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد فارسی اور پشتو میں بھی بات کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات کہ زلمے ان طالبان کی امامت میں نمازیں بھی ادا کر رہے ہیں۔ کہیں مذاکرات کے اختتام تک زلمے خلیل زاد بھی امیر المومنین مولوی ہبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرلیں؟ (آخری جملہ ازارہِ تفنن درج کیا گیا ہے، احباب اس کو سنجیدہ نہ لیں۔)
امریکی وفد کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ کچھ معاملات پر طالبان کا مؤقف غیر لچک دار ہے، لیکن وہ بہت ہی مدلل اور شائستہ گفتگو کر رہے ہیں اور بات چیت کا ماحول بہت خوشگوار ہے۔ جو معاملات زیرِ غور ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں:
٭… فوجی انخلاء کے دوران واپس ہوتی غیر ملکی فوج کو مکمل تحفظ و احترام فراہم کیا جائے گا۔
٭… نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
٭… افغان میں موجود نیٹو اسلحہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ نیٹو یہ سارا اسلحہ ان کے حوالے کر دے یا اپنے ساتھ واپس لے جائے۔ اسلحہ واپس لے جانے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا، جو امریکہ کی پریشانی کا باعث ہے۔ خبر ہے کہ حالیہ ملاقات میں جنرل ووٹل نے یہ اسلحہ پاکستان کو فروخت کے لئے پیش کیا تھا، لیکن اسلام آباد کو اس میں دلچسپی نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اسلحے کی بڑی کھیپ کو افغانستان ہی میں تباہ کر دیا جائے۔
٭… طالبان امریکہ نواز افغان حکومت اور ان کے حلیفوں کو عام معافی دینے پر تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیٹو انخلاء کے بعد بننے والی عبوری حکومت میں اشرف غنی انتظامیہ کی اچھی شہرت رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائے گا۔ طالبان کو موجود افغان حکومت میں کرپشن پر شدید تشویش ہے۔
٭… خیال ہے کہ انخلاء کے ٹائم ٹیبل پر بھی اتفاق ہوگیا ہے اور جون 2020ء تک غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔
٭… اس وقت ایک ہی نکتے پر بات اٹکی ہوئی ہے اور وہ ہے انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں امریکہ کے فوجی اڈوں کی موجودگی۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے چند اڈے برقرار رکھے۔ امریکہ یہ ضمانت دینے کو تیار ہے کہ ان اڈوں کے باہر طالبان تعینات ہوں گے اور ان اڈوں کو مستقبل کی افغان حکومت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن طالبان اس پر تیار نہیں۔ اب امریکہ کا مطالبہ بگرام اڈے تک محدود ہوگیا ہے، لیکن طالبان کے لئے یہ بھی ناقابل قبول ہے اور گزشتہ دو دن سے اسی نکتے پر بات ہو رہی ہے۔ اس معاملے پر طالبان اپنا مؤقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔
٭… عبوری جنگ بندی پر اصولی اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن معاہدہ ہو جانے کی صورت میں نیٹو افواج پر گولی نہیں چلائیں گے۔ لیکن انخلاء مکمل ہونے تک وہ اپنے ہتھیار بھی نہیں رکھیں گے۔ افغان فوج کے بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں طالبان حملے جاری رکھیں گے۔
اگر چند برس پہلے کے پاکستانی اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے طالبان کا تصور جاہل و اجڈ لوگوں کے ہجوم کے طور پر ابھرتا تھا۔ لوگ طالبان اور امریکہ کی لڑائی کو فرعونیت اور جہالت کی جنگ قرار دے رہے تھے۔ لیکن یہ ’’اجڈو گنوار‘‘ مولوی منجھے ہوئے سفارت کاروں سے جس حلم و متانت، لیکن پرعزم لہجے میں بات کر رہے ہیں، اس سے امریکی بھی بے حد متاثر ہیں۔ مؤمن فطرتاً مخلص و سادہ لوح ہوتا ہے اور کسی کو دھوکہ نہیں دیتا، لیکن مؤمن کو دھوکہ دینا بھی آسان نہیں کہ اس کی بصیرت خدا کے نور سے معمور ہے۔
امریکی سینیٹ میں قرارداد قرارداد کاکھیل:
امریکی حکومت کو ٹھپ ہوئے 33 دن ہو گئے۔ تنخواہوں سے محروم 8 لاکھ سرکاری ملازم فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اکنا ریلیف سمیت سماجی تنظیمیں اور مخیر طبقہ ان لوگوں کی کفالت کر رہا ہے۔ حکومت چلانے کے لئے بجٹ 21 جنوری کو ختم ہو گیا تھا اور نیا بجٹ منظور نہیں ہو رہا۔ صدر ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کے لئے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہیں، جب کہ ڈیموکریٹک اپنے دوست ملک کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کو غیر ضروری اور غیر اخلاقی سمجھتی ہے۔ کل حکومت چالو کرنے کے لئے سینیٹ میں پہلے ریپبلکن پارٹی نے پنا بل یا مطالبہ زر یا Sepending Bill پیش کیا، جس کے حق میں 50 اور مخالفت میں 47 ووٹ آئے۔ بجٹ کی منطوری کے لئے 60 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
ریپبلکن کی ناکامی کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔ ان کے مجوزہ بل میں دیوار کے لئے کوئی رقم نہیں تھی۔ قرارداد کی 52 سینیٹروں نے حمایت کی، جب کہ مخالفت میں 44 ووٹ ڈالے گئے اور یہ قرارداد بھی غیر مؤثر ہوگئی۔ تاہم معنی خیز بات یہ ہے کہ 6 ریپبلکن سینیٹرز نے ڈیموکریٹک قرارداد کی حمایت کی، جس سے ٹرمپ مخالفین کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی صدر کی ضد سے اب ان کی اپنی پارٹی بھی تنگ آرہی ہے۔
ضمنی بجٹ میں ہمشیرہ کا تحفط؟؟
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے رواں مالی سال کے لئے ضمنی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا، جو ان کے الفاظ میں ایک نیا اقتصادی پیکیج ہے۔ حسب توقع تحریک انصاف اسے ایک عظیم الشان انقلابی قدم قرار دے رہی ہے، جب کہ حزب اختلاف کے خیال میں یہ پرانے شکاری کا نیا جال ہے۔ اقتصادیات کے باب میں ہمیں اپنی کم مائیگی، بلکہ بے مائیگی کا اچھی طرح احساس ہے، اس لئے ٹیکسوں کے گورکھ دھندے پر کچھ لکھنا بہت مشکل ہے۔
تاہم وفاقی ٹیکس ادارے FBR نے اس بل کی جو تفصیلات جاری کی ہیں، اس میں Provisional assessment of offshore assetsکے عنوان سے یہ بیان بھی ہے:
Through this amendment provisional assessment may be made in case of an offshore asset not declared earlier if such asset is discovered by the Commissioner or any department or agency of the federal or provincial government
ترجمہ: اس ترمیم کے ذریعے ایسے غیر ملکی اثاثوں (offshore assets) کی تفصیلات عارضی تشخیص کے لئے جمع کرائی جا سکیں گی، جو پہلے ظاہر نہیں کئے گئے، لیکن کمشنر یا وفاقی و صوبائی حکومت کے کسی شعبے یا ایجنسی نے دریافت کر لئے ہوں۔
نیت پر شک اچھی بات نہیں، لیکن ہمشیرہ اول (علیمہ خان) کی دبئی جائیداد کے حوالے سے اس پر چبھتے ہوئے سوالات متوقع ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post