معارف و مسائل
قرآن کریم کے نسق و نظم میں غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے سب سے پہلے تو اس جملے پر نظر ڈالئے، جس میں حق تعالیٰ نے اپنی نعمت کے اظہار کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے ان کے دلوں میں رأفت، رحمت، رہبانیت پیدا کر دی۔ نسق کلام بتلاتا ہے کہ جس طرح رأفت و رحمت مذموم نہیں، اسی طرح ان کی اختیار کردہ رہبانیت بھی اپنی ذات سے کوئی مذموم چیز نہ تھی، ورنہ مقام امتنان میں رأفت و رحمت کے ساتھ رہبانیت کا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اسی لئے جن حضرات نے مطلقاً رہبانیت کو مذموم و ممنوع قرار دیا، ان کو اس جگہ رہبانیت کے عطف میں غیر ضروری تاویل کرنا پڑی کہ اس کو رأفت و رحمت پر عطف نہیں مانا، بلکہ ایک مستقل جملہ یہاں محذوف قرار دیا یعنی ابتداعوا (کما فعلہ القرطبی) لیکن مذکورہ تفسیر پر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ آگے بھی قرآن کریم نے ان کے اس ابتداع پر کوئی نکیر اور رد نہیں فرمایا، بلکہ نکیر اس پر کی گئی کہ انہوں نے اس اختیار کردہ رہبانیت کو نبھایا نہیں، اس کے حقوق و شرائط کی رعایت نہیں کی، یہ بھی جب ہی ہو سکتا ہے کہ ابتداع کو لغوی معنی میں لیا جائے، شرعی اور اصطلاحی معنی ہوتے تو قرآن خود اس پر بھی نکیر کرتا، کیونکہ بدعت اصطلاحی خود ایک گمراہی ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ کی مذکورہ حدیث سے اور بھی یہ بات واضح ہو گئی کہ ترہب اختیار کرنے والی جماعت کو نجات یافتہ جماعتوں میں شمار فرمایا، اگر یہ بدعت اصطلاحی کے مجرم ہوتے تونجات یافتہ میں شمار نہ ہوتے، بلکہ گمراہوں میں شمار کئے جاتے۔
کیا رہبانیت مطلقاً مذموم و ناجائز ہے یا اس میں کچھ تفصیل ہے؟
صحیح بات یہ ہے کہ لفظ رہبانیت کا عام اطلاق ترک لذات و ترک مباحات کے لئے ہوتا ہے، اس کے چند درجے ہیں، ایک یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے، یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے، اس معنی کے اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے اور آیت قرآن (لاتحرموا طیبت…) اور اس کی امثال میں اسی کی ممانعت و حرمت کا بیان ہے، اس آیت کا عنوان لاتحرموا خود یہ بتلا رہا ہے کہ اس کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ خدا کی حلال کی ہوئی چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے رہا ہے، جو احکام الٰہیہ میں تبدیل و تحریف کے مترادف ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post