مُردوں کی بھلائیاں ذکر کرو:
محمد بن سیرینؒ کی مجلس خیر و برکت، نیکی اور وعظ و نصیحت کی مجلس ہوتی، جب ان کے پاس کسی کی برائی بیان کی جاتی تو آپؒ فوراً اپنی معلومات کے مطابق اس کی اچھائی بیان کرنے لگتے۔
ایک مرتبہ آپؒ نے دیکھا کہ ایک شخص حجاج بن یوسف کو اس کی موت کے بعد گالی دے رہا ہے، آپؒ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فریاما: بھیتجے خاموش رہو! حجاج اب اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے، جب تم خدا کی بارگاہ میں پہنچو گے تو تمہیں اپنا ایک چھوٹا سا گناہ بھی حجاج کے بڑے گناہ سے بھاری دکھائی دے گا۔ اس دن ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی۔ خوب اچھی طرح جان لو حق تعالیٰ قیامت کے دن اپنی عدالت میں حجاج سے ان لوگوں کا بدلہ لے گا جن پر اس نے ظلم کئے اور وہاں پر ان لوگوں سے بھی اسے بدلہ دلائے گا جنہوں نے حجاج پر ظلم کیا۔ سنو! آج کے بعد کسی کو گالی نہ دینا اور برابھلا نہ کہنا۔
حدیث شریف میں آیا ہے: (ترجمہ) ’’جو لوگ دنیا سے چلے گئے، ان کی بھلائیوں کا ذکر کرو۔‘‘
جب کوئی شخص تجارت کے سفر پر روانہ ہونے لگتا تو آپؒ اسے یہ نصیحت کرتے۔ ’’میرے بھتیجے! خدا سے ڈرتے رہنا یعنی گناہ نافرمانی سے بچتے رہنا۔ اپنا مقدر حلال طریقے سے تلاش کرنا۔ میری یہ بات پلے باندھ لینا اور اچھی طرح یاد رکھنا اور اس کو بھولنا مت، کہ انسان کو ہمیشہ اس کا مقدر ملتا ہے، اگر تم ناجائز طریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو گے، تو اتنا ہی ملے گا جتنا تمہارے مقدر میں ہے۔ اس سے ایک ذرّہ بھی زیادہ تم حاصل نہیں کر سکتے۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی النہی عن سب الموتیٰ: 2/310)
بنوامیہ کے حکمرانوں سے حق بات کہنا:
محمد بن سیرینؒ کے بنو امیہ کے حکمرانوں سے ڈرے بغیر حق بات کہنے کے بہت سے واقعات مشہور و معروف ہوئے۔ آپؒ نے ہمیشہ ان کے سامنے حق، سچ بات کہی اور اخلاص کے ساتھ انہیں نصیحت کی۔
ایک مرتبہ بنو امیہ کے سردار عراق و ایران کے گورنر عمر بن ہبیرہ فزاری نے محمد بن سیرینؒ کو ملاقات کے لیے بلایا، آپؒ اس سے ملنے کے لیے اپنے بھتیجے کے ہم راہ چل دیئے۔ جب وہاں پہنچے تو گورنر نے انہیں خوش آمدید کہا اور بڑی عزت و اکرام سے پیش آیا، تخت پر اپنے ساتھ بٹھایا اور بہت سے دین و دنیا کے مسائل ان سے پوچھے، پھر یہ دریافت کیا:
’’اے ابوبکر! آپ اپنے شہر کے باشندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں۔‘‘
آپؒ نے بلا جھجک ارشاد فرمایا: ’’میں نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ ظلم ان میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور آپ ان سے غافل ہیں۔‘‘
اس بات پر آپؒ کے بھتیجے نے آپ کے کندھے کی چٹکی لی۔ آپؒ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: سوال تجھ سے نہیں کیا گیا، بلکہ مجھ سے کیا گیا اور میں اس کا ذمّہ دار ہوں، بلاشبہ یہ ایک گواہی ہے، جو اس کو چھپائے گا، وہ گناہ گار ہوگا۔
جب مجلس ختم ہوئی تو عمر بن ہبیرہ نے اسی اعزاز و اکرام سے الوداع کیا، جس طرح ان کا استقبال کیا تھا اور ان کی خدمت میں تین ہزار دینار کی ایک تھیلی پیش کی، جسے لینے نے انہوں نے صاف انکار کردیا۔
بھتیجے نے پوچھا: ’’گورنر کا تحفہ قبول کرنے میں کیا حرج تھا؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’اس نے مجھے یہ تحفہ اپنے خیال میں مجھے اچھا سمجھتے ہوئے دیا۔ اگر اس کے خیال کے مطابق میں اچھے لوگوں میں سے ہوں تو اچھائی کا تقاضہ ہے کہ میں یہ تحفہ قبول نہ کروں۔ اگر میں اچھے لوگوں میں سے نہیں ہوں تو پھر مجھے یہ تحفہ قبول کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post