معارف القرآن

0

معارف و مسائل
رہبانیت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ مباح کے کرنے کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار نہیں دیتا، مگر کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پابندی کرتا ہے، دنیوی ضرورت جیسے کسی بیماری کے خطرے سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے اور دینی ضرورت یہ کہ یہ محسوس کرے کہ میں نے اس مباح کو اختیار کیا تو انجام کار میں کسی گناہ میں مبتلا ہو جاؤں گا، جیسے جھوٹ، غیبت وغیرہ سے بچنے کے لئے کوئی آدمی لوگوں سے اختلاط ہی چھوڑ دے، یا کسی نفسانی رذیلہ کے علاج کے لئے چند روز بعض مباحات کو ترک کر دے اور اس ترک کی پابندی بطور علاج و دوا کے اس وقت تک کرے جب تک یہ رذیلہ دور نہ ہو جائے، جیسے صوفیائے کرام مبتدی کو کم کھانے، کم سونے، کم اختلاط کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایک مجاہدہ ہوتا ہے، نفس کو اعتدال پر لانے کا، جب نفس پر قابو ہو جاتا ہے کہ ناجائز تک پہنچنے کا خطرہ نہ رہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ درحقیقت رہبانیت نہیں، تقویٰ ہے، جو مطلوب فی الدین اور اسلاف کرام صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ دینؒ سے ثابت ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا، مگر اس کا استعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے، اس طرح کے استعمال کو بھی چھوڑنا ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے ، یہ ایک قسم کا غلو ہے ، جس سے احادیث کثیرہ میں رسول اقدسؐ نے منع فرمایا ہے اور جس حدیث میں ’’لا رھبانیۃ فی الا سلام‘‘ آیا ہے یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں، اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل و ثواب سمجھے، بنی اسرائیل میں جو رہبانیت اول شروع ہوئی، وہ اگر حفاظت دین کی ضرورت سے تھی تو دوسری قسم یعنی تقویٰ میں داخل ہے، لیکن اہل کتاب میں غلو فی الدین کی آفت بہت تھی، وہ اس غلو میں پہلے درجہ سے تحریم حلال تک پہنچے تو حرام کے مرتکب ہوئے اور تیسرے درجے تک رہے تو بھی ایک مذموم فعل کے مجرم بنے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More