قسط50
آزمائش میں صبر و استقامت:
حق تعالیٰ نے حضرت محمد بن سیرینؒ کے صبر و استقامت اور صداقت کا امتحان لینا چاہا اور انہیں ایک آزمائش میں مبتلا کر دیا، جیسا کہ بہت سے ایمان والے مردوں اور عورتوں پر آزمائش آتی ہے، کہ وہ اس امتحان میں بھی خدا کے احکام پر جمے رہتے ہیں یا نہیں؟
آپؒ نے ایک مرتبہ چالیس ہزار کا ادھار تیل خرید لیا، جب تیل کا ایک برتن کھولا تو اس میں سے ایک مرا ہوا گلاسڑا، چوہا برآمد ہوا۔ آپؒ نے دل میں سوچا کہ تیل تو ایک جگہ تیار کیا گیا ہے، یہ نجاست صرف اسی برتن کے لیے مخصوص نہیں ہے، جسے میں نے کھولا ہے، بلکہ تمام برتنوں میں موجود تیل نجس (ناپاک) ہوگیا ہے۔
انہوں نے سوچا کہ اگر میں اس عیب کی وجہ سے تیل بیچنے والے ہی کی طرف لوٹا دوں تو ہو سکتا ہے وہ یہی تیل دوسرے لوگوں کو بیچ دے۔ جس سے عام مسلمان بے خبری میں ناپاک تیل خرید کر استعمال کریں گے اور انہیں اس سے نقصان ہوگا۔
دوسرے مسلمانوں کو نقصان سے بچانے کے لیے سارا تیل بہا کر ضائع کر دیا اور سوچا آہستہ آہستہ قرض ادا کریں گے۔
مگر خدا تعالیٰ کا کرنا اس طرح ہوا کہ دوسرا کاروبار بھی نہیں چل سکا۔ اس سے انہیں بہت بڑا نقصان ہوا اور ان پر کافی قرض چڑھ گیا۔ تیل والے نے رقم کا مطالبہ کیا، جو یہ ادا نہ کر سکے۔ اس نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے آپ کو قرض کی ادائیگی تک جیل بھیج دیا۔
جب وہ ایک لمبی مدت تک قید میں رہے تو جیل کا چوکیدار ان کے علم و عمل، تقویٰ و عبادت سے متاثر ہو کر کہنے لگا:
’’جب راحت ہو جایا کرے تو آپ اپنے گھر چلے جایا کریں، صبح کو واپس آجایا کریں، آپ آزادی تک اس طرح کرتے رہیں، میں اس کا ذمّہ دار ہوں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’نہیں، خدا کی قسم، میں ایسے نہیں کروں گا۔‘‘
جیل کے چوکیدار نے پوچھا: ’’کیوں! خدا آپ پر رحم فرمائے؟‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس خیانت پر آپ کا تعاون نہیں کر سکتا کہ آپ کو حکومت نے امانت دار سمجھ کر بٹھایا ہے، اب اگر میں نکل جاؤں تو گویا اس امانت میں خیانت کرنے میں میں آپ کا مددگار بن گیا اور میں کسی گناہ کے کام میں مددگار نہیں بننا چاہتا۔ ‘‘
جب حضرت انس بن مالکؓ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت فرمائی: جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے محمد بن سیرینؒ غسل دیں اور وہی میری نماز جنازہ پڑھائیں۔ اس وقت یہ قید میں تھے، لوگ حکمران کے پاس گئے کہ خادمِ رسولؐ جلیل القدر صحابی سیدنا انسؓ کی وصیت اسے سنائی اور اس سے اجازت طلب کی کہ محمد بن سیرینؒ وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔
انہیں حکومت کی طرف سے اجازت دے دی گئی، لیکن محمد بن سیرینؒ نے کہا میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم قرض خواہ سے اجازت نہیں لیتے، میں اس کے حق کی وجہ سے قید میں ڈالا گیا ہوں۔ جب قرض خواہ نے انہیں اجازت دی تو اس وقت آپ قید خانے سے نکلے۔ حضرت انسؓ کی میت کو غسل دیا، کفن پہنایا، نمازِ جنازہ پڑھائی اور قید خانے کی طرف لوٹ گئے۔ اپنے گھر والوں کو دیکھنے بھی نہیں گئے۔ پھر جب قرض ادا ہو گیا تو حق تعالیٰ نے جیل سے بھی چھٹکارا نصیب کر دیا۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post