حضرت جنید بغدادیؒ کا آستانہ شکستہ دلوں، خستہ حالوں، محتاجوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس کے برعکس آپ کی ذاتی محفلوں کا یہ حال تھا کہ وہاں اہل ذوق کے سوا کسی کا گزر ممکن نہیں تھا۔ ایک دن آپ کے کسی ہم مذاق دوست نے دعوت کی۔ حضرت جنید بغدادیؒ خوشی خوشی تشریف لے گئے۔ ابھی کھانا شروع نہیں ہوا تھا کہ ایک شخص مکان میں داخل ہوا۔ حضرت جنیدؒ اس شخص سے واقف تھے۔ وہ ایک کم علم اور بے ذوق انسان تھا۔ محفل میں آنے والا شخص ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اپنی چادر اتار کر دیتے ہوئے فرمایا: ’’اسے لے جاکر رہن رکھ دو اور جتنی رقم ملے اس کی شکر لے آئو‘‘۔
پھر جیسے ہی وہ شخص چادر لے کر گھر سے باہر نکلا، حضرت جنید بغدادیؒ اپنی جگہ سے اٹھے اور دروازہ بند کر دیا۔ تمام دوست بڑی حیرت سے آپ کے اس عمل کو دیکھ رہے تھے۔ دروازہ بند کرنے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے بآواز بلند اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’سنو! میرے عزیز! یہ چادر میں نے تمہیں دے دی، مگر خدا کے لیے آج کی رات ادھر کا رخ نہ کرنا‘‘۔
احباب نے حیران ہو کر اس کا سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’ایک بے خبر اور بے ذوق انسان ہماری مجلس میں چلا آیا تھا، میں نے اپنی چادر دے کر اس سے فراغت حاصل کرلی اور آج رات کی صحبت کو غیروں سے بچا لیا‘‘۔
یہ واقعہ حضرت جنید بغدادیؒ کی نفاست، طبع اور اعلیٰ ذوق کی عکاسی کرتا ہے، ورنہ آپ کی تواضع اور انکسار کا تو یہ عالم تھا کہ آپ کے شاگرد رشید حضرت شیخ ابو محمد جریریؒ حج کو تشریف لے گئے۔ پھر جب آپ حج ادا کرنے کے بعد واپس لوٹے اور بغداد کی حدود میں داخل ہوئے تو اہل خانہ کے ساتھ عزیروں اور دوستوں کو اپنا منتظر پایا۔ تمام لوگوں نے حضرت شیخ ابو محمد جریریؒ کا والہانہ استقبال کیا اور گھر چلنے کے لیے کہا۔
جواب میں حضرت شیخ ابو محمدؒ نے فرمایا: ’’جب تک میں ایک شخص کی زیارت نہ کر لوں، اس وقت تک نہ میں گھر جائوں گا اور نہ کوئی دوسرا کام کروں گا‘‘۔
دوستوں اور رشتے داروں نے پوچھا ’’ابو محمد! وہ شخص کون ہے؟‘‘
حضرت شیخ ابو محمد جریریؒ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اس شخص کو نہیں جانتے۔ وہ مرد بزرگ میرے استاد گرامی کے سوا کون ہوسکتا ہے؟‘‘
اہل خانہ اور احباب نے گھر چلنے کے لیے بہت زور دیا، مگر شیخ ابو محمدؒ نے ان کی ایک نہ مانی اور طویل سفرکی تھکن کے باوجود حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے شاگرد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائوں سے سرفراز فرمایا۔
دوسرے دن شیخ ابو محمد جریریؒ کے مکان پر دستک ہوئی۔ آپ باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت جنید بغدادیؒ دروازے پر جلوہ افروز ہیں۔ شیخ ابو محمدؒ نے حیرت سے استاد گرامی کی طرف دیکھا اور نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا: ’’سیدی! آپ نے کیوں زحمت کی۔ میں اسی لئے تو پہلے خود حاضر ہوگیا تھا کہ آپ زحمت سے بچ جائیں‘‘۔
جواب میں حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’ابو محمد! میرے گھر آنے میں سبقت کرنا تمہارا فعل تھا۔ اس سے تمہاری شرافت نفس کا اظہار ہوتا ہے، مگر میرا آنا اپنی جگہ ہے۔ تمہارے حسن اخلاق کا حق ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔ اگر تم پہلے چلے آئے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمہارا حق مجھ پر سے ساقط ہوگیا‘‘۔
اس واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ تواضع اور انکسار کے کس درجے پر فائز تھے۔ عاجزی و انکساری اولیائے کرام کا خاص وصف ہے۔ جس میں یہ وصف نہ ہو وہ ولی نہیں ہوسکتا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post