محمد زبیر خان
پوزیشن ہولڈر نابینا طالبہ کو پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ سفید موتیا کا شکار کنزہ ساجد کو درخواست کے باوجود انٹری ٹیسٹ کے لئے بڑے فونٹ میں سوالنامہ بھی نہیں دیا گیا۔ یونیورسٹی کا عملہ حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی اور ناروا سلوک کرتا رہا۔ ہتک آمیز رویے اور ناانصافی پر کنزہ نے اپنے وکیل کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
لاہور کی رہائشی کنزہ دو سال کی عمر میں موتیا کا شکار ہوگئی تھی۔ اس کے ماں باپ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کنزہ کو نہ صرف کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونے دیا گیا، بلکہ گھر میں اس کی تعلیم کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کنزہ نویں کلاس میں داخلہ لینے کے قابل ہوگئی۔ وہ ہونہار تھی، لہٰذا وہ دل لگا کر محنت کرتی رہی اور سفید موتیا کے باوجود کلاس میں ٹاپ پر رہتی۔ اسکول اور کالج کے بعد کنزہ نے فزیکل کلینکل کے لئے کرسچن کالج میں داخلہ لیا، جہاں اس نے امتحان میں پچانوے فیصد نمبر حاصل کر کے ریکارڈ قائم کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ مگر پنجاب یونیورسٹی نے کنزہ کی کلینکل سائیکالوجی میں داخلہ لینے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ کنزہ نے ’’امت‘‘ کو اپنی کہانی کچھ ان الفاظ میں سنائی:
’’بیچلر میں گولڈ میڈل لے کر میں بہت پُرجوش تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اب میرا مستقبل بہت روشن ہے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ کلنیکل سائیکولوجی پورے ملک میں سب سے اچھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے داخلے کیلئے درخواست دی، جس کے ساتھ میں نے اپنے طبی کاغذات بھی منسلک کئے۔ درخواست میں یہ بھی مینشن کیا کہ مجھے انٹری ٹیسٹ کیلئے بڑے فونٹ پر سوالنامہ دیا جائے، تاکہ میں اسے اچھی طرح پڑھ سکوں اور سوالات کے جواب دے سکوں۔ میں نے ان کو بتایا تھا کہ مجھے میگنیفائیڈ گلاس (محدب چشموں) کے بغیر کم نظر آتا ہے اور یہ چشمے اب میری زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن جب میں داخلہ فارم وغیرہ لینے کیلئے گئی تو اس موقع پر موجود عملے نے مجھ سے بڑے عجیب و غریب سوالات کئے، جن سے مجھے بہت دکھ پہنچا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اسی شعبے میں داخلہ لینا چاہتی ہوں۔ لیکن انہوں نے مجھے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی اور دلبرداشتہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر میں نے ان باتوں کو کلیریکل عملے کی باتیں سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ امتحان والے دن مجھے اس سے زیادہ برے سلوک کا نشانہ بننا پڑے گا‘‘۔ یہاں تک پہنچ کر کنزہ آبدیدہ ہوگئی۔ پھر اس نے بتایا ’’جب میں امتحان دینے پہنچی تو عملے نے جن میں غالباً اساتذہ بھی شامل تھے، حیرت سے میری طرف دیکھا اور انتہائی نفرت انگیز لہجے میں کہا کہ آپ کو منع کیا گیا تھا کہ امتحان دینے نہ آنا، پھر کیوں آئی ہیں۔ اس پر میں نے مودبانہ لہجے میں عرض کی کہ میرے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ صرف سفید موتیا ہی تو ہے اور میگنیفائیڈ چشموں کی مدد سے میں بڑے فونٹ کو اچھی طرح پڑھ سکتی ہوں۔ جس پر انہوں نے مجھے کہا کہ جاؤ ہال میں چلی جاؤ۔ جب میں ہال میں گئی تو میرے سامنے معمول کے فونٹ میں سوالنامہ تھا۔ میں نے نگران عملے سے کہا کہ میں نے تو بڑے فونٹ کے سوالنامہ کیلئے درخواست دی تھی تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ میں نے اسی فونٹ پر کوشش کر کے پرچہ حل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اتنے میں ایک نگران خاتون وہاں آئیں اور مجھے انتہائی برے طریقے سے کہا کہ اٹھو، تم پرچہ نہیں دے سکتی ہو۔ ان کا لہجہ ایسا تھا کہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں کوئی مجرم ہوں اور مجھے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا دی جارہی ہے۔ جب میں اٹھی تو مجھے ہال سے باہر لے جایا گیا۔ جہاں ایک اور خاتون سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے انتہائی درشت لہجے میں کہا کہ تم یہ مضمون نہیں پڑھ سکتی۔ کیوں یہاں آئی ہو۔ اس پر میں رونے لگی اور میں نے اپنے والد کو فون کیا اور بتایا۔ والد نے کہا کہ وہ یونیورسٹی پہنچ رہے ہیں اور ساتھ ہی یونیورسٹی میں کسی جاننے پہچاننے والوں کو فون کئے۔ جس کے بعد مجھے کہا گیا کہ مجھے یہ پرچہ معمول کے فونٹ پر ہی دینا ہوگا اور دوبارہ امتحانی ہال میں لے جایا گیا۔ وہاں طلبا و طالبات مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نہ پتا نہیں کیا جرم کیا ہو۔ بہرحال میں سوالنامہ پڑھ تو نہیں سکتی تھی، جتنا سمجھ میں آیا، وہ دے کر گھر آگئی۔ توقع کے مطابق جب نتیجہ آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میں پانچ نمبروں سے فیل ہوچکی ہوں‘‘۔ ایک سوال پر کنزہ کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ میرے ساتھ وہ ایسا ہی کریں گے۔ مگر میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں۔ میں نے اپنی وکیل انسانی حقوق کی کارکن امبرین قریشی ایڈووکیٹ کی وساطت سے رٹ پیٹیشن دائر کردی ہے۔ اس رٹ پیٹیشن میں صرف اپنی ہی بات نہیں کی، بلکہ اپنے جیسے دوسروں کے مستقبل کا بھی سوال اٹھایا ہے‘‘۔
’’امت‘‘ نے ایڈووکیٹ امبرین قریشی سے بھی بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کنزہ ان کے پاس امتحان دینے کے بعد آئی تھیں اور اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کنزہ خود بھی جانتی ہے کہ اس کے کچھ قانونی حقوق ہیں، جن کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ میں نے کنزہ کے ساتھ تفصیل سے بات کی اور اس کے کاغذات کو بھی دیکھا۔ کنزہ اے کلاس طالبہ ہے۔ پاکستان میں بہت کم خواتین ہوں گی، جو سفید موتیا وغیرہ کا شکار ہونے کے باوجود تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ جبکہ کنزہ نے بغیر کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کی مدد سے اپنی مدد آپ کے تحت پڑھائی کی ہے اور بیچلر میں گولڈ میڈل لیا ہے۔ اس سب کے باوجود ان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک غیر قانونی ہے، جس پر ہم لاہور ہائی کورٹ گئے ہیں۔ امبرین قریشی کا دعویٰ تھا کہ ’’ایسے کیسز کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے بہت اچھے فیصلے موجود ہیں کہ کس طرح ادارے اس طرح کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کریں گے اور ان کو ایسے زرائع فراہم کریں گے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں اور ملازمت بھی حاصل کرسکیں۔ اسی طرح آئین بھی پاکستان کے ہر شہری کا تحفظ کر رہا ہے۔ ان قوانین اور فیصلوں کے تحت ہم ہائی کورٹ سے حق مانگ بھی رہے ہیں اور پوچھ بھی رہے ہیں کہ کنزہ کے ساتھ زیادتی کا ازالہ کیا جائے اور اس کے علاوہ اگر کنزہ کی طرح کے کوئی بھی طالب علم آئیں تو تمام یونیورسٹیز، تعلیمی ادارے دوبارہ ایسا نہ کریں۔ ایسے طالب علموں کی بھرپور مدد کی جائے۔ صرف آنکھوں کے اسپیشل طالب علم ہی نہیں، بلکہ ہر طرح کے اسپیشل بچوں اور طالب علموں کو خصوصی طریقے سے ڈیل کیا جائے‘‘۔٭