جب اس عظیم جرنیل نے دریا عبور کر لیا، تو سب سے پہلے لشکرِ اسلام نے دریا کے کنارے پر بیٹھ کر وضو کیا، وضو ایسا اچھا اور ایسا مکمل، کہ کیا کہنے! پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر مدد دینے اور دشمن پر غلبہ عطا کرنے والے رب کا شکرادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز ادا کی۔
پھر اس عظیم جرنیل نے اپنے غلام فروخ کو جنگ میں شاندار کارنامہ سرانجام دینے کی بنا پر انعام دیتے ہوئے انہیں اپنی غلامی سے آزاد کردیا اور انہیں مال غنیمت میں سے کافی حصہ عطا کیا اور اس کے علاوہ اور بھی انعامات واغزازات سے نوازا۔
اس روشن اور مبارک دن کے بعد حضرت ربیع بن زیاد حارثیؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور اپنی اس آرزو اور خواب کے پورا ہونے کے دو سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ رہے یہ بہادر، جوان فروخ تو وہ اپنے حصے کا مال غنیمت اور عظیم جرنیل کی طرف سے دیئے گئے انعامات لے کر مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گئے۔
خدا کی راہ میں نکلنے کا عجیب واقعہ
فروخؒ جب مدینہ منورہ پہنچے، اس وقت یہ ابھرتے ہوئے طاقتور، خوبصورت اور بہادر جوان تھے اور ان کی عمر تیس سال تھی۔ انہوں نے رہنے کے لیے ایک گھر اور سنت پر عمل کرنے کی نیت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ پہلے انہوں نے مدینہ منورہ میں ایک گھر خریدا اور اس کے بعد ایک ایسی عقل مند، سمجھ دار اور دیگر بہت سی خوبیوں والی بیوی کا انتخاب کیا، جو ان کی ہم عمر تھیں۔
فروخؒ وہ گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئے جو حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں حاصل ہوا تھا۔ نیک بیوی کے ساتھ انہیں زندگی کا مزا، بیوی کا اچھا طور طریقہ اور چند روزہ زندگی کی تر و تاز گی، اپنی سوچ و خیال سے بھی بڑھ کر میسر آئی، گھر کے در و دیورا سے خوشبو کے نغمے گونجتے ہوئے محسوس ہوئے۔ لیکن وہ بیوی جسے رب تعالیٰ نے عمدہ صفات اور عادات سے نوازا تھا۔ وہ اسلام کے ایک داعی، مؤمن، بہادر سپاہی کی خدا کے راستے میں جہاد کی والہانہ محبت پر غالب نہ آسکی۔
جب بھی مسلمانوں کی کام یابی کی خوش خبریاں مدینہ منورہ میں پہنچتیں تو ان کا جذبۂ جہاد انتہائی بلندی پر پہنچ جاتا اور شوق شہادت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا۔ بہادر فروخؒ نے مسجد ِ نبویؐ کے خطیب کو فضائلِ جہاد پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ حاضرین کو لشکرِ اسلام کی میدانِ جہاد میں کام یابی و کامرانی کی خوش خبری دے رہے تھے اور شہادت کا جذبہ دلوں میں پیدا کر رہے تھے۔
خطبہ کیا تھا پر اثر الفاظ کا مجموعہ اور دل پر جم جانے اور اثر کرنے والے خیالات کا مرکب تھا، سننے والے رو رہے تھے، ہر فرد جذبۂ جہاد سے سرشار نظر آتا تھا۔ جمعہ سے فارغ ہو کر سیدھے گھر آئے، اسلامی لشکر میں شامل ہو کر میدانِ جہاد کی طرف جانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ بیوی کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔
بیوی نے کہا:آپ! مجھے اور میرے ہونے والے بچے کو کس کے حوالے کر کے جارہے ہیں؟ آپ مدینہ میں اجنبی ہیں، یہاں تو نہ آپ کے گھر والے ہیں اور نہ ہی آپ کا یہاں کوئی رشتہ دار ہے۔‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’میں تم کوخدا کے حوالے کر کے جا رہا ہوں اور ظاہری اسباب کے طور پر یہ تیس ہزار دینار اپنے پاس رکھو، یہ مجھے مالِ غنیمت میں ملے تھے، انہیں سنبھالو یا تجارت میں لگا دینا، خود اپنے اوپر بھی خرچ کرنا اور اپنے ہونے والے بچے پر بھی خرچ کرنا، یہاں تک کہ میں میدانِ جہاد سے صحیح سالم واپس آؤں یا خدا تعالیٰ مجھے شہادت نصیب کردے جو کہ میری دلی تمنا ہے۔‘‘
پھر الوداعی سلام کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
اس معزز، سمجھ دار اور وفادار خاتون کے یہاں خاوند کی روانگی کے چند ماہ بعد ایک خوبصورت بچے کی ولادت ہوئی، اسے دیکھ کر ماں بہت خوش ہوئی اور اسے خیال آیا کہ شاید یہ بچہ میرے خاوند (جو کہ حق تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لیے گئے ہوئے ہیں) کی جدائی کا احساس کم کردے اور ان کی یہ نشانی اور امانت میرے دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے۔ اس بچے کا نام ربیعہ رکھا گیا ( ربیعہ کے معنی سدا بہار کے ہیں اور’’ موسم ربیع‘‘ سدابہار موسم کو کہا جاتا ہے) تاکہ اس کا وجود گھر کے آنگن کے لیے سدابہار موسم کا سماں پیدا کرتا رہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post