قومی معیشت کے تمام ملکی و غیر ملکی اشاریئے اس امر کی کھل کر نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی واضح پالیسی اور منصوبہ بندی کے بغیر دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے امداد اور قرضوں کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتائج منفی ہی برآمد ہوں گے۔ اس کے صفر سے ایک درجہ بھی اوپر اٹھنے کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے تو دو ٹوک الفاظ میں اعتراف کرلیا ہے کہ ہم عوام کو فوری ریلیف نہیں دے سکتے۔ عام انتخابات کے باعث فی الحال بھارت سے بھی تجارت نہیں ہوسکتی۔ معیشت اور صنعت کی بہتری کیلئے ہرممکن اقدام کر رہے ہیں، صنعتوں کو بجلی اور گیس دیں گے۔ کسٹم ڈیوٹی اور پیداواری لاگت کم کریں گے، برآمدات پر بھی ڈیوٹی کم کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے قرضے کیلئے اپنی شرائط نرم کردی ہیں۔ اس سود خور عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستان کے معاملات آخری مراحل میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کیلئے قرضے کا حجم نہیں، شرائط اہم تھیں۔ بات چیت کے آغاز میں دونوں کے مؤقف میں جتنا فرق تھا ، وہ کم ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔ ان کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ اس کے ساتھ جلد از جلد معاہدہ ہوجائے۔ ہم جب تک تجارتی خسارے کو قابو میں نہیں لاتے، اس وقت تک باقی معاملات حل نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم عمران کے دو اہم ترین ماہرین معاشیات کے مذکورہ بیانات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران حکومت نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جو ملک کو بہتر تبدیلی کی سمت لے جانے والا ہو۔ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ اس دعوے اور وعدے کی بنیاد ہی پر ملے تھے کہ قومی دولت کے لٹیروں سے لوٹ کا سارا مال اگلوا کر اس سے غریب لوگوں کو فوری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ لیکن وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ قومی ترقی و خوشحالی کی دلی ہنوز دور است۔ مشیر تجارت کی منطق ملاحظہ ہو کہ بھارت کے آئندہ عام انتخابات کی وجہ سے اس کے ساتھ ابھی تجارت کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ گویا وہاں انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد اس کے ساتھ تجارتی حالات سازگار ہونے تک پاکستان کی معیشت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اسے کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ‘‘۔ پاکستان کے اقتصادی معاملات کا بھارت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ جب بھی دونوں ملکوں میں تجارتی روابط بحال ہوئے، توازن ادائیگی ہمیشہ بھارت ہی کے حق میں رہا۔ ہمارا حکمران اور متمول طبقہ بھارت سے عیش و عشرت کا سامان منگواکر اور بدلے میں اپنی برآمدات نہ بڑھاکر اسی کو فائدہ پہنچاتا چلا آیا ہے۔
عوام کو فوری ریلیف نہ دینے کا اعتراف دراصل مشیر تجارت کا اعتراف شکست ہے۔ بائیس کروڑ پاکستانی باشندے فوری اور معمولی سہولتوں کو برسوں سے ترس رہے ہیں۔ حکومت انہیں اس صورتحال سے نہیں نکال سکتی تو اس کے آئندہ وعدوں پر کس بنیاد پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرلی تو اگلے انتخابات سے پہلے وہ بھی شیخی باز لنگور کی طرح ہاتھ جھاڑ کر اور پیڑوں پر اچھل کود کرتی ہوئی یہ کہتی نظر آئے گی کہ دیکھو میں نے تمہارے سامنے کیسی بھاگ دوڑ کی، لیکن بیمار معیشت کو نہ بچاسکی اور بالآخر اس نے دم توڑ دیا۔ تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے نہ ہو تو کوئی معمولی اقدام بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا۔ چھ ماہ تک قوم منتظر رہی کہ شاید نئی حکومت اپنا قبلہ مقرر کرکے کہیں کوئی پیش رفت دکھانے میں تھوڑی بھی کامیاب نظر آئے، لیکن تحریک انصاف کی قیادت، رہنمائوں، وزیروں، مشیروں، سب کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ویسے ہی ہیں جیسے سابقہ ادوار میں حکمرانوں اور ان کے طفیلیوں کے تھے۔ ایک پریشان کن رپورٹ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں جولائی 2018ء تا دسمبر 2018ئ، پہلی ششماہی کے دوران تمام قرضوں اور امداد کا مجموعی حجم دو ارب تیس کروڑ ڈالر ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل کے مالی سال میں اس مدت کے دوران سابقہ حکومت کو پانچ ارب نواسی کروڑ ڈالر ملے تھے۔ دوست ملکوں سے اب تک جو کچھ حاصل ہوا ہے، وہ چھ ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسے ادائیگیوں کے توازن کی خاطر اسٹیٹ بینک میں رکھوایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے سے پہلے ہماری مالی ضروریات سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کے جواب دینے کی کوشش میں زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہونے کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال قرضوں کے حصول میں ساٹھ فیصد کمی نے پاکستانی معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، جبکہ اسٹیٹ بینک کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ جنوری 2019ء تک صرف چھ ارب تریسٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز تھے۔ اس سنگین صورتحال کے تناظر میں تحریک انصاف سے یہی پوچھا جاسکتا ہے کہ اس کی ننگی حکومت کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی؟ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان کی پسندیدہ پنجاب حکومت کے بیس سے زائد وزرا کے ماتحت محکموں کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دی گئی ہے۔ کسی کی صفر تو کسی کی اکتیس فیصد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی خاطر تمام صوبائی محکموں کے لئے دو کھرب اڑتیس ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ چودہ کھرب روپے کا مجموعی بجٹ صوبائی محکموں کو جاری کیا گیا ہے، جس میں سے اب تک اکانوے ارب روپے استعمال ہوئے ہیں۔ استعمال کی تفصیلات سے قطع نظر کسی ایک ترقیاتی منصوبے میں بھی عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی کام دکھائی دیتا تو فواد چوہدری اس کے ڈھول پیٹتے ضرور نظر آتے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post