بصرہ شہر میں ایک بزرگ ’’مِسکی‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ مشک کو عربی میں مِسک کہتے ہیں۔ لہٰذا مِسکی کے معنیٰ ہوئے مشکبار یعنی مشک کی خوشبو میں بسا ہوا۔ وہ بزرگ ہر وقت مشکبار و خوشبودار رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس راستے سے گزر جاتے وہ راستہ بھی مہک اٹھتا! جب داخلِ مسجِد ہوتے تو ان کی خوشبو سے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ حضرت مِسکی تشریف لے آئے ہیں۔
کسی نے عرض کی: حضور! آپ کو خوشبو پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی؟ فرمایا: میں نے کبھی خوشبو خریدی، نہ لگائی۔ میرا واقعہ بڑا عجیب و غریب ہے: میں بغدادِ معلٰی کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوا۔ جس طرح امراء اپنی اولاد کو تعلیم دلواتے ہیں میری بھی اسی طرح تعلیم ہوئی۔ میں بہت خوبصورت اور با حیا تھا۔ میرے والد صاحِب سے کسی نے کہا: اسے بازار میں بٹھاؤ تاکہ یہ لوگوں سے گھل مل جائے اور اس کی حیا کچھ کم ہو۔ چنانچِہ مجھے ایک بزاز (کپڑا بیچنے والے) کی دکان پر بٹھا دیا گیا۔
ایک روز ایک بڑھیا نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے، پھر بزاز (کپڑے والے) سے کہا: میرے ساتھ کسی کو بھیج دو تاکہ جو پسند ہوں، انہیں لینے کے بعد قیمت اور بقیہ کپڑے واپس لائے۔ بزاز نے مجھے اس کے ساتھ بھیج دیا۔
بڑھیا مجھے ایک عظیم الشان محل میں لے گئی اور آراستہ کمرے میں بھیج دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک زیوارت سے آراستہ خوش لباس جوان لڑکی تخت پر بچھے ہوئے منقش قالین پر بیٹھی ہے، تخت و فرش سب کے سب زرِّیں ہیں اور اس قدر نفیس کہ ایسے میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی اس لڑکی پر شیطان غالب آگیا اور وہ ایک دم میری طرف لپکی اور چھیڑ خانی کرتے ہوئے منہ کالا کروانے کے در پے ہوئی۔ میں نے گھبرا کر کہا: خدا سے ڈر! مگر اس پر شیطان پوری طرح مسلط تھا۔جب میں نے اس کی ضد دیکھی تو گناہ سے بچنے کی ایک تجویز سوچ لی اور اس سے کہا: مجھے استنجاء خانے جانا ہے۔ اس نے آواز دی تو چاروں طرف سے لونڈیاں آگئیں، اس نے کہا: اپنے آقا کو بیت الخلاء میں لے جاؤ۔ میں جب وہاں گیا تو بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آئی۔مجھے اس عورت کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوئے اپنے رب سے حیا آ رہی تھی اور مجھ پر عذابِ جہنم کے خوف کا غلبہ تھا۔ چنانچِہ ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ یہ کہ میں نے استنجا خانے کی نجاست سے اپنے ہاتھ منہ وغیرہ سان لئے اور خوب آنکھیں نکال کر اس کنیز کو ڈرایا، جو باہر رومال اور پانی لئے کھڑی تھِی، میں جب دیوانوں کی طرح چیختا ہوا اس کی طرف لپکا تو وہ ڈر کر بھاگی اور اس نے پاگل، پاگل کا شور مچا دیا۔سب لونڈیاں اکٹھی ہوگئیں اور انہوں نے مل کر مجھے ایک ٹاٹ میں لپیٹا اور اٹھا کر ایک باغ میں ڈال دیا۔ میں نے جب یقین کرلیا کہ سب جاچکی ہیں تو اٹھ کر اپنے کپڑے اور بدن کو دھو کر پاک کر لیا اور اپنے گھر چلا گیا، مگر کسی کو یہ بات نہیں بتائی۔اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے: ’’تم کو حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہی خوب مناسبت ہے۔‘‘اور کہتا ہے کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔تو انہوں نے کہا: میں جِبرئیل (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہوں۔اس کے بعد انہوں نے میرے منہ اور جسم پر اپنا ہاتھ پھیر دیا۔ اسی وقت سے میرے جِسم سے مشک کی بہترین خوشبو آنے لگی۔یہ حضرت سیدنا جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک کی خوشبو ہے۔ (روض الریاحین فی حکایات الصالحین، ص: 334، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
Prev Post
Next Post