قسط نمبر 27
ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
دلگیر نے ایک خط 20 اپریل کو پوسٹ کیا۔ دو تین دن جواب کا انتظار رہا۔ جب قمر زمانی کا کوئی خط نہ ملا تو انہوں نے 25 اپریل کو ایک اور خط ڈالا۔ یہ بھی عالم اضطراب میں لکھا گیا ہے۔ اور خط سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے جذبہ عشق اور جنون میں تھوڑا ہی فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ اصل خط دیکھئے۔
25 اپریل 17ء
خط تجھ کو وہ لکھے جو تری یاد چھوڑ کر
دل محوِ فکر واپسی نامہ بر کرے
پیاری
بہت ستاتی ہو۔ خطوں کے جواب میں اتنی دیر۔ کل نہ مرا تو آج مرجائوں گا۔ آپ یہ سن کر ہنسیں اور میں روئوں کہ 23 اپریل کو جب آپ کا خط نہ ملا تو طبیعت میں الجھن پیدا ہوئی۔ دل کی وحشت بڑھی اور مجھ سے کسی عنوان ضبط نہ ہو سکا۔ سیدھا اسٹیشن پہنچا۔ ٹکٹ لیا اور روانہ ہوگیا۔ راستے میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ قلب میں پنکھے لگے ہوئے ہیں۔ خیر، دیار محبوب کے شوق میں رات کٹ گئی۔ صبح ہوتے ہی بریلی میں تھا (یعنی 24 کو) دن بھر اس پیارے شہر کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرا۔ پہلے ’’ذخیرہ‘‘ گیا۔ وہاں سے الٹے پائوں واپس آیا۔ پھر اس تلاش میں ہر جگہ گیا کہ کسی طرح قمر منزل کا پتہ چل جائے تو وہیں پائوں توڑ کے بیٹھ رہوں۔ مگر تیرہ بختی ساتھ تھی، ناکامی ہوئی۔ آپ کا کھوج نہ لگا۔ آہ! مجھے اس دل کی بے تابی نے مارا۔ کہاں سے لائوں اس آرام جان کو، اپنی دیوانگی و شوریدہ سری کی داد نہیں چاہتا۔ میں یہ سمجھ کر خوش ہوں…
میری ناکامیوں پر تم کو رحم آجائے گا آخر
مری امید میری سعی لاحاصل سے نکلے گی
خیال تھا کہ وہاں پہنچ کر تسکین ہوجائے گی، مگر کچھ سکون نہ ہوا۔ اختلاج اور بڑھا۔ اس وحشت کا یہ نتیجہ اضطراری تھا کہ رات گاڑی سے واپس آیا۔ راستے کی یادگار یہ شعر ہے جسے آپ بھی سن لیجئے…
یہ ترا تغافل جان گسل نہ کرے کہیں تجھے منفعل
کہ بہت ہی زارد شکستہ دل ترے در سے اہل وفا گئے
آج یہاں آکر بھی کوئی خط نہ پایا۔ اتنی دل شکستگی۔ کس سے کہوں۔ خدا مواقع بخیر کرے۔ ’’حسن‘‘ اب تک نہ آیا۔ غزل کی اصلاح کون کرتا۔ رسید تک ندارد۔ ناہیدؔ کے مضمون کے متعلق کوئی رائے نہیں۔ نوٹ نہیں۔ رسید نہیں۔ آپ کے پوچھنے والوں نے تنگ کر رکھا ہے۔ کس کس کو جواب دوں۔ مسز سجاد حیدر (سجاد حیدر یلدرم کی بیگم) کا خط آیا ہے، جسے بجنسہ ارسال کرتا ہوں۔ ان کو خواہ براہ راست جواب دیجئے یا میری معرفت۔
آپ کو کیوں کر یقین دلائوں کہ خط جلد نہ ملنے سے میری حالت تباہ ہو جاتی ہے۔ اپنے ہوش میں نہیں رہتا۔ نقاد کے کام میں بھی دل نہیں لگتا۔ اس لئے جس طرح ممکن ہے، جلد جلد یاد فرماتی رہئیے اور مفصل، ورنہ صبر آزما سکوت کسی دن میری جان لے لے گا۔ ہائے اللہ! خیر مئی کب آئے گا۔
بدستور
’’دلگیر‘‘
دلگیر کی بے تابی کا اندازہ اوپر کی سطروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ قمر زمانی کی تلاش میں بریلی گئے اور واپس آئے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ بے تابی نے دیوانگی کا روپ دھارنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں وہ قمر زمانی کے جواب کا انتظار کیا کرتے۔ اس لئے یکے بعد دیگرے خطوط لکھتے رہے۔ چنانچہ 25 کے بعد 28 اپریل کو انہوں نے پھر ایک خط ڈالا اور صرف اس قدر لکھا۔
28 اپریل 17ء
آہ!
سیہ خانہ رہی ہے اور وہی سوزِ غم فرقت
مرے کس کام آیا آپ کو رشکِ قمر ہونا
آزردہ
’’دلگیر‘‘
تین دن جواب کا انتظار کرکے 2 مئی کو پھر قمر زمانی کو لکھا۔
2 مئی 17ء
اے عیسیٰ بیماراں از ہجر تو رنجورم
شاید نہ خبرداری از حالتِ بیمارے
آنکھوں میں بسنے والی۔ دل میں سمانے والی۔ تجھ پر سلام۔ ہائے! خدا جانے آپ کیسی ہیں۔ کس حال میں ہیں کہ اب تک سوادِ خط سے آنکھیں پرنور نہیں ہوئیں۔
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تسپر یہ ناامیدواری ہائے ہائے
کم سے کم اپنی خیریت تو لکھئے۔ یہ بدنصیب آنکھیں جس طرح آپ کے خط کو روزانہ ڈھونڈتی ہیں، انہیں سے پوچھئے۔ آہ! میری حالت کون دیکھے…
وہ بے کسی ہے کہ پُرسانِ حال کوئی نہیں
تھا ایک دل وہ تمہارا ہی جاں نثار ہوا
خیر پیاری۔ تم سلامت رہو۔ میں ایک ارادہ کرچکا ہوں اور وہ جلد پورا ہوگا
جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے
کس قدر ہم کو شادمانی ہے
جان سے بیزار
’’دلگیر‘‘
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post