اخبار میں سرخی جمی تھی کہ: ’’امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے۔‘‘
قطر میں ہونے والے مذاکرات کو کامیاب ہونا ہی تھا۔ امریکہ کافی وقت سے کوشاں تھا کہ اس کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ ملے۔ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کی جلدی تھی، مگر طالبان پرسکون تھے۔ طالبان نے اپنے ہر انداز سے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’اتنی جلدی کیا ہے، ابھی تو جنگ چل رہی ہے۔ چلنے دو جنگ کو۔ جب تھک گئے تب مذکرات کی میز پر بھی بیٹھ جائیں گے۔‘‘ مگر امریکہ بالکل تھک گیا تھا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے اور باہر سے بھی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی نہیں، ریاست کی طرف سے بول رہا ہے کہ ’’اب لڑکوں کو اپنے ملک واپس آنا چاہئے۔‘‘ مگر اس سے کوئی پوچھے کہ ’’وہ لڑکے جو کابل اور بگرام ایئر پورٹس سے تابوتوں میں بند کرکے واپس وطن بھیجے گئے اور جنہیں پھولوں والے قبرستان کی زمین میں دفن کیا گیا، وہ لڑکے کس طرح واپس آئیں گے؟‘‘ مگر مغرب میں میڈیا آزاد نہیں۔ اگر امریکی میڈیا اپنے ضمیر کی آواز سن سکتا اور سنا سکتا تو وہ ضرور کہتا کہ ’’اس شکست فاش کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ وہ یہ سوال اٹھاتا کہ ’’’امریکہ اپنے چہرے پر مذاکرات کا نقاب کیوں چڑھا رہا ہے؟‘‘ وہ اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتا کہ وہ برے طریقے سے ہار چکا ہے۔ افغانستان سے نکلنے والا اس کا وجود زخموں سے چور ہے۔ وہ سپر پاور ہے۔ اس کا وجود بہت بڑا ہے۔ مگر جو زخم اس کو لگے ہیں، وہ آنے والے دنوں میں بھی امریکہ کی طاقت کو متاثر کریں گے۔ ابھی تو امریکہ کے زخم نئے ہیں۔ جب امریکہ افغانستان سے واپس جائے گا تب بین الاقوامی برداری اس کے جسم پر پڑے ہوئے نیل دیکھے گی۔ یہ ممکن ہے اور عین ممکن ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد وہ دنیا کی واحد سپر پاور بھی نہ رہ پائے!‘
ایک طرف امریکہ کو افغانستان سے جانے کی جلدی ہے اور دوسری طرف امریکہ کے سہارے پر چلنے والوں کو پریشانی ہے۔ اشرف غنی کا چین اور سکون لٹ گیا ہے۔ قطر میں مذاکرات کے بعد زلمے خلیل زاد کابل آئے تو پریشان افغان صدر نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ ’’کیا طالبان اقتدار میں شریک ہو رہے ہیں؟‘‘ زلمے خلیل زاد نے ان سے کہا کہ ’’اس بارے میں تو ابھی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘ اشرف غنی ہو یا زلمے خلیل زاد، وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ افغان طالبان اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے چہروں پر سکون ہے۔ ان کی آنکھوں میں گہرا ٹھہراؤ ہے۔ اب امریکہ ان کو سمجھ گیا ہے، اس لیے وہ انہیں اقتدار کی لالچ دے کر ان کی توہین نہیں کرتا۔ وہ امریکہ سے بار بار صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ ’’افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کی تاریخ بتائیں۔‘‘ امریکہ کو بھی جانے کی جلدی ہے، مگر امریکہ جاتے جاتے اپنے بچے کھچے مفادات کو تحفظ دینے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ کے آسرے پر طرز زندگی تبدیل کرنے والے دل میں دعا مانگ رہے ہیں کہ مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک آجائے اور کسی بہانے سے امریکہ رک جائے، مگر امریکہ کے لیے افغانستان میں ہر پل عذاب ہے۔ امریکی چال پر چلنے والے افغان پریشان ہیں کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد طالبان ان کیا حال کریں گے؟ اس لیے مغربی میڈیا میں ان اسٹوریز کی بھرمار ہے، جو طالبان مخالف قوتوں کو تحفظ فراہم کرنے پر اصرار کر رہی ہیں۔
کل کابل میں کیا ہوگا؟ آج بہت ساری آنکھیں وہ منظر دیکھ سکتی ہیں۔ مگر امریکہ کی افغانستان میں ناکامی، بلکہ بدترین ناکامی پر جس طرح مغربی میڈیا پردہ ڈال رہا ہے، وہ سب میڈیا کے اصل اصولوں کے منافی ہے۔ مغربی میڈیا بہت ہوشیار کاریگر ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ نہ صرف جملے بلکہ الفاظ بھی کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں؟ مگر وہ امریکہ کے بارے میں منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ امریکہ کی شکست کو ’’امن معاہدے‘‘ کے الفاظ میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کو معلوم ہے، وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ طالبان نے امریکیوں کو لوہے کے چنے چبوائے ہیں۔ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے کے دوران امریکہ نے ویت نام سے اپنی فوجیں نکالی تھیں اور وہ جنگ کوئی 19 برس چلی تھی۔ امریکہ کی عسکری تاریخ میں وہ جنگ طویل ترین تھی۔ امریکہ افغانستان میں ویت نام سے زیادہ طویل جنگ لڑنے کا خواہش مند تھا، مگر وہ 17 برسوں میں ٹوٹ کر بکھرنے لگا۔ امریکہ اس وقت بھی اپنے مخصوص اسٹائل کے ساتھ الفاظ سے کھیلتے ہوئے اپنی شرمناک شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ جس قدر اپنی شکست کو چھپا رہا ہے، اس کی شکست اتنی ہی عیاں ہو رہی ہے۔
امریکہ مغرب کی بہت بڑی طاقت ہے۔ کاش! اس ملک میں اخلاقی جرأت بھی اتنی ہوتی، جتنا یہ ملک ہے۔ اگر امریکی ریاست میں یہ جرأت نہیں تو وہاں کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں میں اتنا دل گردہ ہونا چاہئے کہ وہ تسلیم کریں کہ ان کے ملک نے اکیسویں صدی کا آغاز بے شرمی سے کیا۔ وہ صدی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انسانیت کی صدی ہوگی۔ وہ انسانی حقوق کی صدی ہوگی۔ وہ امن اور عالمی بھائی چارے کی صدی ہوگی۔ آغاز میں ہی امریکہ نے اس صدی کے منہ پر مظلوموں کا خوں مل دیا۔ اگر عالمی ضمیر کے ہونٹ آزاد ہوتے تو امریکہ سے پوچھتے کہ اس نے سترہ برس اور چار ماہ تک لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر کیا حاصل کیا؟ اس وقت جب امریکہ اپنی معیشت خود اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کے بعد افغانستان کو ایک ٹوٹے پھوٹے ہوئے ملک کی صورت میں چھوڑ کر بھاگ رہا ہے تو اس نے افغان نوجوانوں کی زندگی کا خاتمہ کرکے اور خود اپنے امریکی نوجوانوں کو مردہ حالت میں ملک واپس لے جاکر کیا حاصل کیا؟ وہ امریکی نوجوان جن کی بہت بڑی تعداد جسمانی طور پر معذور ہے۔ اب وہ اس حالت میں نہیں کہ امریکی کلبوں میں رقص کر سکیں۔ جسمانی معذوروں کے ساتھ ساتھ جو ذہنی معذور بن گئے ہیں، ان نوجوانوں کے بارے میں امریکہ سے کون پوچھے؟
اگر عالمی ضمیر زندہ ہوتا، تو وہ نہ صرف امریکہ بلکہ نیٹو کے ان یورپی ممالک کے ان نوجوانوں کے بارے میں بھی ایسے الفاظ لکھتا، جیسے الفاظ دوسری جنگ عظیم کے دوران روس کے گمنام سپاہیوں کے قبرستان پر لکھے گئے تھے۔ ان میں کوئی نوجوان جرمن تھا اور کوئی اطالوی۔ کوئی انگریز تھا اور کوئی فرینچ۔ اب ان کے گھروں میں صرف ان کی تصاویر آویزاں ہیں۔ مغرب کے میڈیا کا فرض ہے کہ اپنے لوگوں کو بتائے کہ ’’مردہ بچے گھر نہیں لوٹتے‘‘اور ان بچوں کو افغان لوگوں نے خواہ مخوہ نہیں مارا تھا۔ مغربی نوجوان اپنی مجرم حکومتوں کے حکم پر افغانستان کی آزادی کو سلب کرنے آئے تھے۔ ان کے ساتھ وہ سلوک ہونا چاہئے جو آزادی کے دشمن سے ہوتا ہے۔ جنگ میں کیے گئے جرائم پر ان الفاظ کا پردہ ڈالنے کی ہر کوشش مجرمانہ ہے کہ ’’جنگ میں تو ایسا ہوتا ہے‘‘ جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے، مگر ہر جنگ ایک سی نہیں ہوتی۔ یہ جنگ نہیں تھی۔ یہ تو حملہ تھا۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر جنگ مسلط کی تھی۔ افغانوں نے تو صرف اپنے وطن کی آزادی کا تحفظ کیا۔ وہ اپنے وطن کی آزادی اور اس کی حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں شہید ہوئے۔ مگر انہوں نے ایک سال، ایک ماہ، ایک ہفتہ اور ایک دن تو کیا، ایک پل کے لیے بھی نہیں پچھتایا کہ انہوں نے وطن کے لیے اتنی جانیں قربان کرکے غلط تو نہیں کیا!!؟
امریکہ اگر اس بات کا اعتراف کرے کہ اس نے اپنی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے ساتھ ان افغانوں سے شکست کھائی ہے، جن کو ABC بھی نہیں آتی۔ امریکہ نے ان پر کونسا ہتھیار نہیں آزمایا؟ کروز میزائل سے لے کر ڈیزی کٹر بم اور ڈرون حملے! امریکہ نے افغانستان کے حریت پسندوں کو ہر طرح سے تباہ کرنے کی پوری کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو پایا۔ اب جب سترہ برس قبل والی باتیں یاد آتی ہیں تو ایک عجیب کیفیت جی کو جکڑ لیتی ہے۔ وہ مشرف تھا، جو اپنے آپ کو کمانڈو کہتا تھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتا تھا کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔‘‘ جب اس نے امریکی صدر بش کا ٹیلی فون اٹینڈ کیا، تب وہ خوف کے مارے کانپ اٹھا اور وہ شیخ رشید جو اپنے آپ کو بڑا بہادر کہتا پھرتا ہے، وہ ان دنوں بار بار کہا کرتا تھا کہ اگر امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو ہمارا حشر بھی تورا بورا جیسا ہو جاتا۔ اب وہ کیا کہتا ہے؟ یہ لوگ جن پر ڈیزی کٹر بموں سے کارپیٹ بمباری کی گئی۔ وہ لوگ جو تورا بورا سے نکلے اور انہوں نے امریکہ سے سترہ برس تک مقابلہ کیا اور وہ بھی کسی ظاہری سپلائی لائن کے بغیر۔ ان کی تو عالمی ضمیر نے بھی مدد نہیں کی۔ ان پر ہر طرف سے تنقید ہوتی رہی۔ وہ ملامت کی طرف دھیان دیئے بغیر لڑتے رہے۔ اور ان کے پاس کوئی بڑا ہتھیار نہیں تھا۔ ان کے پاس کوئی میزائل، کوئی ہیلی کاپٹر اور کوئی ڈرون نہیں تھا۔ ان کے پاس وہ AK47 تھی، جس سے ان کے ہاتھ گفتگو کرتے تھے۔ جو ان کے ہاتھوں کی زبان سمجھتی تھی۔ اس کلاشنکوف کے ساتھ انہوں نے ایک اور سپر پاور کو شکست فاش دی۔ افغان حریت پسندوں نے امریکیوں کو وہ سبق سکھائے ہیں کہ انہیں واپس گھر جا کر بہت ساری کتابیں لکھنے کا مواد مل گیا ہے۔ وہ ’’پہاڑوں کی پکار‘‘ سے لے کر ’’میں نے جلال آباد کو جلتے دیکھا‘‘ تک بہت ساری کتابیں لکھ پائیں گے۔ وہ اپنے ملک کی شکست فاش پر ’’امریکہ کیوں ہارا؟‘‘ کے عنوان سے بھی ایک بہترین کتاب تحریر کر سکتے ہیں۔ اگر ان کو ضمیر مجبور کرے تو وہ ایک ایسی کتاب بھی لکھ سکتے ہیں، جس کا عنوان ہوگا: ’’مردہ بچے گھر نہیں لوٹتے‘‘۔٭
Prev Post
Next Post