نجم الحسن عارف
لیگی رہنمائوں کو میاں نواز شریف کی جلد رہائی کی امید ہے۔ گزشتہ روز (جمعرات) کو سابق وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے سابق صدر ممنون حسین سمیت کئی لیگی رہنمائوں نے ملاقات کی۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے سابق صدر ممنون حسین کی جیل میں پہلی ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے لئے ممنون حسین بطور خاص کراچی سے اپنے قریبی دوست خواجہ قطب الدین کے ساتھ لاہور آئے۔ ذرائع کے مطابق کوٹ لکھپت جیل کے احاطے میں سابق صدر کی گاڑی سے آگے دو اور گاڑیاں تھیں، جن کی وجہ سے جیل کے باہر سابق صدر کو نصف گھنٹے سے زائد وقت گاڑی میں انتظار کر کے گزارنا پڑا۔ جمعرات کے روز میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والے ملاقاتوں میں بیسیوں شخصیات اور افراد شریک رہے۔ خود سابق صدر ممنون حسین کی ملاقات کے دوران بھی جیل انتظامیہ کے دفتر میں چالیس سے زائد رہنما اور سابق و موجودہ ارکان پارلیمنٹ موجود تھے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق تمام رہنماؤں نے اپنے اپنے انداز میں میاں نواز شریف کو ملک کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ بقول سابق صدر ممنون حسین کے، اس سے جو تاثر بنا، وہ یہی ہے کہ ملک میں نئی حکومت آنے کے بعد صرف غریب آدمی ہی سخت معاشی تنگیوں کا شکار نہیں ہے، بلکہ امیر طبقہ بھی سخت تشویش اور مہنگائی سے پریشان ہے۔ سابق صدر ممنون حسین نے ’’امت‘‘ سے جیل میں میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ ’’میاں نواز شریف اس ملاقات میں ٹھیک ٹھاک لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر بشاشت موجود تھی۔ میاں نواز شریف نے اپنی کسی بیماری کا ذکر بھی نہیں کیا اور نہ زبان پر شکوہ لائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ ان کے طبی معاملات کودیکھ رہا ہے۔ ان کے دل کا آپریشن ہوچکا ہے۔ ان کا ذاتی معالج بھی انہیں اسپتال منتقل کرنے کا کہہ چکا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میاں نواز شریف کے معائنے کے لئے قائم میڈیکل بورڈ بھی انہیں اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کرے گا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں سابق صدر ممنون حسین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میری جیل میں بلاشبہ میاں نواز شریف سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ لیکن بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر رائیونڈ میں بھی ملاقات ہو چکی ہے، جو صدارت سے فراغت کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ اب جیل میں ملاقات کے لئے دس بجے کا وقت مقرر تھا۔ میں وقت پر پہنچا، مگر جیل کے احاطے میں میری گاڑی کے آگے دو گاڑیاں تھیں۔ راستہ تنگ تھا۔ اس لئے میری گاڑی کو جیل کے قریب پہنچنے میں آدھا پونا گھنٹہ اضافی لگ گیا۔ میں اس دوران گاڑی میں رہا۔ وہاں پہنچنے کے بعد میری سابق وزیر اعظم کے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کی اور انہوں نے میری خیریت دریافت کی۔ پارٹی کے حوالے سے بھی باتیں ہوئیں۔ لیکن مجموعی طور پر ملکی صورت حال ہی تمام رہنماؤں کے درمیان زیر بحث رہی۔ ہر کوئی ملک میں گورننس اور معاشی بدحالی اور پریشانیوں کا احوال سنا رہا تھا۔ کہ جس کا پہلے ہزار روپے گیس کا بل آتا تھا، اب اس کا بل بیس ہزار اور اس سے زائد آنے لگا ہے۔ گویا غریب تو پریشان ہے ہی، امیر بھی خوش نہیں ہیں۔ سخت پریشانی والے حالات ہیں۔ مہنگائی نے ہر ایک کا جینا دو بھر کردیا ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں سابق صدر نے بتایا کہ ’’پارٹی کے معاملات اور سندھ میں نواز لیگ کا بھی ذکر ہوا۔ میاں نواز شریف نے مجھے ہدایت کی کہ تنظیم سازی سے متعلق معاملات کو میں دیکھوں‘‘۔ سابق صدر نے کہا ’’میں جس نئے گھر میں منتقل ہوا ہوں، وہ بہت پرانا بلکہ بوسیدگی کا شکار گھر ہے۔ اس لئے میں اس میں منتقلی کے بعد اسی کی مرمت و تزئین کے معاملات کو وقت دے رہا ہوں۔ جن صاحب کے پاس یہ گھر اس سے پہلے تھا، انہوں نے اسے اچھی حالت میں نہیں رکھا۔ اس لئے میں اس کی مرمت وغیرہ کرا رہا ہوں‘‘۔ اپنی یاد داشتیں لکھنے کے حوالے سے ’’امت‘‘ کے ایک سوال پر ممنون حسین نے کہا کہ ’’میں نے سوچا ہے۔ اس پر کچھ آغاز بھی کرنا چاہا۔ لیکن ابھی گھر کی مرحمت وغیرہ میں پھنسا ہوا ہوں۔ اس سے نکل کر اپنی یاد داشتوں کو ضبط تحریر میں لانے کی ضرور کوشش کروں گا‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’جیل میں ملاقات کے لئے مجھے جس انتظار سے گزرنا پڑا، اس پر میرے سامنے تو میاں نواز شریف نے کچھ نہیں کہا تھا، البتہ بعد میں کچھ کہا ہو تو میرے علم میں نہیں‘‘۔ خیال رہے ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق صدر کو انتظار کی زحمت دینے پر میاں نواز شریف نے انتظامیہ کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک سابق صدر کا احترام تو کرنا چاہیے تھا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جب سے اپنی جلد رہائی کے بارے میں زیادہ امید ظاہر کرنا شروع کی ہے، تب سے ان سے ملاقات کے لئے آنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ جمعرات کے روز جو رہنما بطور خاص میاں نواز شریف سے ملاقات کے لئے کوٹ لکھپت آئے، ان میں سابق صدر ممنون حسین کے علاوہ راجہ ظفرالحق، اقبال ظفر جھگڑا، سردار ایاز صادق، احسن اقبال، خواجہ آصف، سردار یعقوب خان ناصر، مشاہد حسین سید اور جاوید ہاشمی نمایاں تھے۔ جبکہ مقامی لیگی رہنما اور کارکنوں کی بھی بڑی تعداد نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ ذرائع کے بقول سابق وزیر داخلہ احسن اقبال آخری وقت پر آئے۔ جب میاں نواز شریف کے ایک اہل خانہ کی ملاقات شروع ہونے والی تھی۔ اہلخانہ میں سے ملاقات کے لئے آنے والوں میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف اور عباس شریف مرحوم کے بیٹے بطور خاص شامل تھے۔ اس موقع پر جہاں امید ظاہر کی گئی کہ 6 فروری کو حالیہ سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے موقع پر میاں نواز شریف کی ضمانت ہو سکتی ہے اور انہیں رہا کیا جاسکتا ہے، وہیں حمزہ شہباز شریف کی آئندہ دنوں لندن روانگی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حمزہ شہباز شریف کی لندن روانگی کا معاملہ خاندان سے باہر کے لوگوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا، بلکہ خاندان کے افراد کے درمیان ہی اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون میں پارٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی خبروں سے میاں نواز شریف جیل میں آنے سے بہت پہلے سے آگاہ ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ کون کس کے ساتھ ہے اور کس کے خلاف ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی میں شخصیات کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ نئی بات نہیں۔ جب 2007ء میں میاں نواز شریف ابھی لندن میں تھے تو اس وقت سردار مہتاب عباسی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر لندن کی سڑک پر الجھ پڑے تھے۔ جنہیں پرویز رشید اور دوسرے پارٹی رہنماؤں نے سمجھاکر خاموش کرایا تھا۔ اس لئے میاں نواز شریف خوب جانتے ہیں۔ خصوصاً اس بارے میں وہ رہنماؤں کو ہدایت بھی دیتے رہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی جمعرات کے روز خوب پر امید نظر آئے کہ 6 فروری کو ان کی ضمانت ہوجائے گی۔ اور میاں نواز شریف اپنے خاندان کے درمیان ہوں گے۔
Prev Post
Next Post