ڈاکٹر ضیاألدین خان
[email protected]
صاحبومنی بدنام ہوگئی۔ شیلا جوان ہوگئی۔ ریشم کمان ہوگئی۔ لیلیٰ قربان ہوگئی۔ پونم ڈھلوان ہوگئی۔ بلو بے ایمان ہوگئی۔ ہیر حیران ہوگئی۔ سسی سردار ہوگئی۔ سوہنی حلوائی ہوگئی۔ جولیٹ جلاد ہوگئی۔ تنو تیار ہوگئی۔ نوری ناراض ہوگئی۔ پنیو پرواز کرگئی۔ بے بی برباد ہوگئی۔ انارکلی ڈسکو چلی۔ ریحام بھی لندن گھر کو گئی۔ مگر وزیر اعظم اب تک کنٹینر سے نہیں اترے۔ عجب حکمت ہے کہ کمر توڑ قرض کو کمر کس دوا بنادیا۔ بھیک کو تمغے کا نام دے دیا۔ عاجزی کو فخر بنا کر بیچ دیا۔ دشنام کو الزام کردیا۔ اور الزام کو اتہام سے بدل دیا۔ دلیل کی جگہ گالی۔ خموشی کی جگہ بک بک۔ کام کی جگہ الزام۔ دھیلے کی جگہ واویلا۔ کیلے کی جگہ کریلا۔ مدد کی جگہ مرغی۔ کیش کی جگہ کُرکُر۔ روٹی کی جگہ بھاشن۔ پانی کی جگہ کہانی۔ علم کی جگہ ظلم۔ قلم کی جگہ چلم۔ تعمیر کی جگہ توڑ۔ سواری کی جگہ بیماری۔ علاج کی جگہ موت۔ تعلیم کی جگہ تنقید۔ حج کی جگہ جج۔ حسن کرشمہ ساز کو وہ آزادی ملی کہ بزدار کو نمبردار۔ خریدار کو قرض دار۔ دکاندار کو خیرات خور۔ سیٹھ کو بھکاری۔ گداگری کو فنکاری اور عوام کو بکری بنا دیا۔ مانگے تانگے کے پیسوں سے ہم بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کرتے ہیں اور لال تنبو کے نیچے بیٹھ کر تالیاں بجاتے ہیں۔ بھیک کی رقم سے ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے ہیں۔ اور پیٹرول بھی گداگری کا ڈلواتے ہیں۔ یہ گداگری بھی صرف اپنے لئے ہے۔ تین بار بے حیا بن کر سعودی عرب گئے اور تین ارب ڈالر کی خیرات سمیٹ لائے۔ لیکن اتنی توفیق نہ ہوئی کہ حاجیوں کے لئے چند کروڑ ڈالر کا پیکیج لے لیتے۔ غریبوں کا بھلا کر دیتے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ پیر کی نہ فقیر کی۔ پہلے اپنے پیٹ کی۔ سو اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے زمین آسمان ایک کر دیا۔ لیکن رحمن کے مہمان کو دھتا بتا دیا۔ بہلول دانا ایک مجذوب فقیر تھے۔ ہارون رشید سے بے تکلفی بھی تھی۔ جب چاہتے۔ بغیر بتائے آجاتے۔ پہریداروں کو ہدایت تھی کہ بہلول آئیں تو آنے دیں۔ روکیں نہ۔ بہلول سادہ آدمی تھے۔ مزاج میں شگفتگی تھی۔ ہنستے ہنساتے۔ ایسی باتیں کہہ جاتے جو ہارون کے دل میں اتر جاتیں۔ ایک دن بہلول آئے تو ہارون رشید نفیس چھڑی سے کھیل رہے تھے۔ بہلول کو دیکھا تو طبیعت جوبن پر آگئی۔ چھڑی بہلول کو دی اور بولے۔ بہلول یہ چھڑی تمہاری ہے۔ لیکن جب کبھی تمہیں خود سے زیادہ بے وقوف آدمی نظر آئے تو یہ اُسے دے دینا۔ بہلول نے مسکرا کر چھڑی رکھ لی۔ دن گزرتے گئے۔ آخر وہ دن آیا جب ہارون کو مرض الموت نے گھیر لیا۔ بہلول کو پتہ چلا تو عیادت اور دیدار کے لئے ہارون کے پاس آئے۔ حال احوال پوچھا۔ ہارون رشید بولے۔ اب سفر آخرت ہے۔ رخصت کی تیاری ہے۔ دعا کرو منزل آسان ہو جائے۔ بہلول نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے ہراول دستے کے طور پر کتنے سپاہیوں کو آگے بھیجا ہے؟ کتنی پولیس راستے کی حفاظت پر لگائی ہے؟ کتنے خیمے پیشگی روانہ کئے ہیں؟ استقبال کے لئے کتنے درباری۔ وزیر پہلے بھیجے گئے ہیں؟ ہارون یہ سن کر بیماری میں بھی مسکرا دیا۔ اور بولا۔ بہلول اس سفر میں کسی کو آگے نہیں بھیجتے۔ بندہ اکیلے جاتا ہے۔ بہلول نے جواب دیا۔ جناب عالی دنیا میں آپ ایک چھوٹا سا سفر بھی کرتے تھے تو ہفتوں پہلے پلاننگ کرتے تھے۔ کتنے سپاہی آگے جائیں گے۔ کتنی رسد ساتھ ہوگی۔ کتنی پولیس راستے کی حفاظت کرے گی۔ کون کون ہمرکاب ہوگا۔ کون کون آگے جائے گا؟ کتنے خیمے شامیانے ہوادار پہلے بھیجیں گے۔ لیکن حیرت ہے آخرت کے طویل سفر کے لئے آپ نے کوئی تیاری نہیں کی۔ اور سفر بھی ایسا جس سے واپس آنا بھی ممکن نہیں۔ اس لئے اس چھڑی کے سب سے بڑے حق دار آپ ہیں۔ یہ کہہ کر بہلول نے ہارون کی دی ہوئی چھڑی اسی کو لوٹا دی۔ عمران خان کو الیکشن سے سال بھر پہلے بتادیا گیا تھا کہ وہ اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ یہ کام ظاہر ہے مقتدر قوتوں نے کیا تھا۔ بشریٰ بی بی نے نہیں۔ تب عمران کو ملکی حالات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ معیشت۔ سیاست۔ خارجہ امور۔ داخلہ امور۔ ساری باتیں بتا دی گئی تھیں۔ پھر بھی چھ ماہ سے وزیر اعظم اور ان کے چہیتوں کے حلق شکوے کرتے نہیں سوکھتے۔ وہی تاویل۔ وہی تذلیل۔ وہی عجلت۔ وہی شرمندگی۔ سوچنے سے پہلے منہ کھولتے ہیں اور بولنے سے پہلے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ شہنشاہ دارا ایک بار شکار پر گیا۔ اور اپنے لشکر سے بچھڑ گیا۔ پھر اچانک صحرا میں ایک گلہ بان نظر آیا تو بادشاہ نے تیر کمان میں تان لیا کہ دشمن نہ ہو۔ چرواہا خوف سے چلایا۔ بادشاہ میں تو آپ کے گھوڑوں کا گلہ بان ہوں۔ انہیں چرانے لایا ہوں۔ بادشاہ کو یہ سن کر سکون ہوا۔ اور بولا۔ نادان تیرے بخت نے یاوری کی ورنہ میں تو تیر چلانے والا تھا۔ چرواہا بولا۔ ’’تو کیسا بادشاہ ہے کہ دوست دشمن میں تمیز کئے بغیر کمان اٹھا لیتا ہے۔ ایک میں گلہ بان ہوں۔ ہزاروں گھوڑوں میں سے ایک کو ڈھونڈ سکتا ہوں۔ مجھے تیری عقل پر حیرت ہے۔ جس ملک کے بادشاہ کا دماغ چرواہے سے بھی کم ہو۔ وہاں خلل اور نقصان تو لازمی ہوگا‘‘۔ یہاں حال یہ ہے کہ سارے کے سارے ان گھڑ۔ الل بچھیرے اونگھتے آنکھتے ہیں یا اچھلتے کودتے ہیں۔ دلدل سے سینگ لڑاتے ہیں۔ پتھر سے سینگ تڑاتے ہیں۔ اور جھاڑی میں سینگ پھنساتے ہیں۔ کام کسی کو نہیں آتا۔ بولنے کے آزار میں سب مبتلا ہیں۔ سورج ڈھلنے سے پہلے سرخی پوڈر لگا کر چینلوں کے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ کہ کس کی اچھالنی ہے۔ کس کی اتارنی ہے۔ آدم بو۔ آدم بو۔ زبانیں اتنی لمبی کہ حلق تنگ پڑجائیں۔ کان اتنے چھوٹے کہ صدائے خدا بھی نہ آئے۔ اور دماغ اتنے مائوف کہ نوشتہ دیوار بھی نہ پڑھ سکیں۔ سارا ملک رو رہا ہے۔ یہ ہنس رہے ہیں۔ شہر میں آگ لگی ہے۔ یہ طبلہ بجا رہے ہیں۔ ساڑھے چھ فیصد گروتھ ڈھائی فیصد پر آگئی ہے۔ یہ اپنے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ ان کے دور کا عدل بھی انہی پر گیا ہے۔ جس مقدمے میں نواز شریف کو پھانسا۔ اسی میں علیمہ کو چھوڑ دیا۔ جس مقدمے کی مالا حسن حسین کو پہنائی۔ اسی میں جاں بخشی جہانگیر ترین کی کر دی۔ جس منی ٹریل کی لاٹھی سے سب کو ہانکا۔ اسی ٹریل کے تخت پر ذوالفقار بخاری اور فیصل واوڈا کو بٹھا دیا۔ سارا کراچی مسمار کردیا۔ سارا بنی گالہ اکھیڑ دیا۔ لیکن عمران کا گھر معاف کر دیا۔ سانحہ ساہیوال نے چوبیس کروڑ عوام کے دل ہلا دیئے۔ لیکن حکومت یہ ثابت کرنے کے لئے اتاولی ہو رہی ہے کہ ذیشان دہشت گرد تھا۔ بس ذمہ داروں کو بچالوں۔ پروں تلے بٹھالوں۔ راضی نامے کروادوں۔ اور یہ راضی نامے کرانے کی عادت بھی خوب ہے۔ سن 800 ہجری کے آغاز میں گجرات اور دکن کے سلطان احمد شاہ نے آٹھ برس حکمرانی پوری کرنے پر جشن کا حکم دیا۔ سلطان احمد نہایت نیک اور عادل بادشاہ تھا۔ اس کے حکم پر سلطنت میں چراغاں ہوا۔ جس میں رعایا کے ہر فرد نے حصہ لیا۔ سلطان کا داماد ایک بااخلاق اور خوبصورت نوجوان تھا۔ اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ شومئی قسمت اسی دن داماد کے ہاتھ سے ایک غریب مزدور مارا گیا۔ سلطان کو اطلاع ملی تو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ مقدمہ شروع ہوا تو ابتدا ہی میں ثابت ہو گیا کہ داماد قاتل ہے۔ قاضی نے مقتول کے وارثوں کو مناسب خوں بہا کے عوض راضی کرلیا۔ یہ رقم بائیس اشرفی بنتی تھی۔ وارثین نے راضی نامے پر دستخط کر دیئے۔ لیکن آخری منظوری سلطان کو دینی تھی۔ فائل پیش کی گئی۔ تو اسی میں قاضی نے پوری روداد لکھ رکھی تھی۔ سلطان نے روداد پڑھی تو بولے۔ ’’اس میں شک نہیں کہ ورثا راضی ہو گئے ہوں گے۔ لیکن حقیقت میں فیصلہ بہت کمزور ہے۔ اور یقیناً اس پر ملزم کا شاہی داماد ہونا اثر انداز ہوا ہے۔ وارثوں کا خیال ہوگا کہ ہماری درگزر سے بادشاہ ممنون ہوگا۔ لیکن نقصان یہ ہوگا کہ شاہی خاندان اور امیروں کے لڑکے کمزور اور غریب رعیت کو بلا خوف مار دیا کریں گے۔ اور چند اشرفیاں دے کر چھوٹ جایا کریں گے۔ میں اس فیصلے کے خلاف ہوں۔ میری بیٹی یقیناً اس صدمے سے مجروح ہوگی۔ اور اسے داغ بیوگی برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن میں اولاد اور خاندان کی خوشی کے لئے غریب رعایا کی جان ارزاں کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ملزم کو یہ گھمنڈ تھا کہ میں بادشاہ کا داماد ہوں۔ جو اولاد جیسا ہوتا ہے۔ اسی طرح راضی نامے اور فیصلے میں بھی شاہی تعلق کا لحاظ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے دولت مندوں کو ڈھیل ملے گی۔ اور غریبوں میں مایوسی پھیلے گی۔ امیروں کے لئے بائیس اشرفیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ لیکن انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ خواہ غریب کی ہو۔ میں ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کرتا ہوں اور حکم دیتا ہوں کہ قاتل کو پھانسی چڑھا دیا جائے۔ اور عبرت کے لئے ایک دن اور ایک رات اس کی لاش درخت سے لٹکائی جائے۔ تاکہ کسی دولت مند کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو‘‘۔ ہر چند کہ اس فیصلے کو بدلنے کے لئے محل کے اندر اور باہر سے بادشاہ پر بہت دبائو ڈالا گیا۔ مگر سلطان نے حکم واپس نہ لیا اور داماد کو دار پر لٹکا دیا۔ عالی جاہ ریاست مدینہ تو دور کی بات ہے۔ آپ ریاست گجرات کا ماڈل ہی اپنالیں۔ تب پتہ چلے گا کہ منہ میں کتنے دانت ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post