اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

0

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدرات میں دو سو اٹھارویں کور کمانڈر کانفرنس گزشتہ روز راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے شرکا نے ملک کے تحفظ و سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا، ملک کے اندرونی معاملات اور خطے میں قیام امن کے لئے کیے جانے والے حالیہ اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ امن واستحکام کے لیے حاصل کردہ کامیابیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ردالفساد کے تحت آپریشنز جاری رہیں گے۔ افواج پاکستان ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اپنی سرحدوں سمیت خطے کے تحفظ و سلامتی پر ان کی پوری توجہ مرکوز ہے۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ امن کی بہتر صورتحال کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا ہے کہ داخلی سیکورٹی کے فوائد عوام کی سماجی و اقتصادی ترقی کی شکل میں سامنے آنے چاہئیں۔ کور کمانڈر کانفرنس میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں، جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی اور بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی فوج اور پولیس کے مظالم پر بھی غور کیا گیا۔ کور کمانڈر کانفرنس فوج کے معمولات میں شامل ہے، جس میں امن وامان اور ملک کی سلامتی کی صورتحال کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں پیش آنے والے واقعات بھی زیر غور آتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے اپنی بدترین پالیسیوں اور لوٹ کھسوٹ کے تحت قوم کو جس طرح مایوس کیا ہے اور اس کا سلسلہ موجودہ دور حکومت میں بھی جاری ہے۔ اس کے تناظر میں اہل وطن نے دو اداروں پر اعتماد کا اظہار کر کے ہمیشہ ان ہی سے اپنی اور ملک کی فلاح و بہبود کی امیدیں وابستہ کی ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں مں قومی دولت کے لٹیروں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ قومی احتساب بیورو نیب اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے بھی سابق حکمرانوں کا کچا چھٹا کھولا جارہا ہے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس سلسلے میں بہت سرگرم دکھائی دیئے، لیکن اب تک کوئی ایک قومی مجرم بھی قرار واقعی سزا نہیں پاسکا ہے۔ ان میں بہت سے آزاد گھوم رہے ہیں، جو لوگ جیلوں میں ہیں انہیں بھی علاج معالجے سمیت باہر سے زیادہ ایسی زبردست سہولتیں میسر ہیں کہ جن کا کوئی غریب اور شریف شہری تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسی لیے وہ جیل کے اندر رہنا پسند کرتے ہیں تاکہ تمام تر عیش وعشرت کے علاوہ انہیں اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے اور عوام کی ہمدریاں سمیٹنے کے مواقع حاصل رہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا اپنے ملک کے نظام انصاف سے بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں بار بار ملکی و عوامی مسائل پر اپنے اختیارات کا تذکرہ کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس کے باوجود آج تک کسی شہری کو معمولی سہولت بھی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ اسی طرح افواج پاکستان کی جانب سے آئے دن امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لے کر اس پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے، جبکہ ایک چھوٹے سے بلدیاتی ادارے سے لے کر پولیس، کچہری اور حکومتی محکموں کی ناقص ترین کارکردگی کے باعث ہر شہری کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کو تو لوگ کسی طرح بھگت رہے ہیں، لیکن شہری سہولتوں کا فقدان اور قدم قدم پر لوگوں کی عزت نفس کا مجروح ہونا اب ناقابل برادشت ہوتا جارہا ہے۔ پہلی بار کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ بات کھل کر کی گئی ہے کہ فوج کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں امن و امان کی صورت حال میں جو بہتری آئی ہے، اس کے ثمرات عوام کی سماجی و اقتصادی ترقی کی شکل میں سامنے آنے چاہئیں۔ پاکستانی شہریوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ فوج اور عدلیہ ملک سے مخلص اور عوام کے ہمدرد ہوں تب بھی ان کے پاس اپنی قوت نافذہ اور اختیارات نہیں ہیں۔ دونوں ادارے ملک کی انتظامیہ یعنی سیاسی حکومت کے تابع ہیں اور وہ اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر ملک و قوم کے مفاد میں از خود کچھ نہیں کرسکتے۔ صرف متنبہ کرسکتے ہیں یا ہدایت دے سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ متعلقہ حلقوں نے اسے برسر اقتدار لاکر یہ توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ اس کے رہنما سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ دیانتدار، اہل اور محنتی ثابت ہوں گے، لیکن چھ ماہ کی کارکردگی نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی تمام ’’صلاحیتوں‘‘ کا پول اس طرح کھول دیا ہے کہ خود ان کے حامی بھی توبہ کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، جس میں تحریک انصاف کی حکومت معمولی کمی یا اسے روکنے کے بجائے اول روز سے اضافہ کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اس کے برعکس عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی بدترین اقتصادی پالیسیوں اور نااہلی کا عالم یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہماری اقتصادی زبوں حالی کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی جارہی ہے۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم عمران خان نے اگر سادگی اور کفایت شعاری کا آغاز اپنی ذات سے کیا ہوتا تو ان کے ساتھی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے اور سابقہ حکمران ٹولوں سے بھی لوٹی ہوئی رقوم نکلوائی جاسکتی تھیں۔ عمران خان کے شاہانہ انداز کا عالم یہ ہے کہ وہ گزشتہ روز لاہور پہنچے تو پروٹو کول کے نام پر تین ایس پی افسران، بارہ ڈی ایس پی، دو سو پینسٹھ ٹریفک وارڈن اور تین سو سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔ پنجاب حکومت نے عمران خان کے تحفظ و سلامتی کے انتظامات فول پروف بنانے کے لئے سڑکوں پر رکاوٹیں (بیریرز) خار دار تا اور قناتیں لگا کر راستے بند کردیئے۔ یادر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جن کی تعریف کرتے ہوئے عمران خان ذرا نہیں تھکتے، وہ بھی اسی آن بان شان سے گزرتے ہیں کہ ان کے روٹ پر کوئی پرندہ بھی پر نہ مارسکے۔ اقتصادی زبوں حالی، عوام کی حالت زار اور حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ خواہش کب، کیسے اور کس کے ذریعے پوری ہوگی کہ امن و امان کی بہتر صورتحال کے ثمرات عام آدمی تک جلد سے جلد پہنچنے چاہئیں۔ آخر میں کہیں انہیں بھی یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More