مجھے لگا کہ ڈاکٹر چوہان اور امر دیپ کو درمیان سے نکال کر اب مجھے معاملہ پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ میں نے سکھبیر کی شک بھری آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’سکھبیر، تم نے ٹھیک پہچانا، یہ واقعی سروس ریوالور ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہ میرے قبضے میں کیسے آیا، تو جواب یہ ہے کہ یہ ریوالور بھی میں نے ایک پولیس انسپکٹر کو قتل کر کے ہتھیایا ہے‘‘۔
میرا جواب شاید سکھبیر کے لیے غیر متوقع تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر نمایاں ہونے والے تعجب کے آثار نظر انداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ ’’بات صاف ہے، تمہارے یا ہمارے پاس جو بھی ہتھیار ہیں، وہ ہم نے اپنے گھروں میں تو تیار نہیں کیے ناں؟ کہیں نہ کہیں سے حاصل ہی کیے ہیں۔ مجھے پتا ہے تم لوگوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے تم نے اپنا یہ پستول کالا بازار سے خریدا ہو۔ لیکن ہمارے پاس پیسے کی شدید کمی ہے۔ اس لیے ہمیں جہاں اور جیسے موقع لگے، ہتھیار چھیننے پڑتے ہیں‘‘۔
میرے لیے اندازہ کرنا مشکل تھا کہ وہ میری باتوں سے کس حد تک قائل ہوا تھا، کیونکہ اس نے میرے ہی ریوالور سے بدستور مجھے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’کہانی تو اچھی بنائی ہے، لیکن میں اتنی آسانی سے تمہارے جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں۔ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے اب ذرا یہ بھی بتادو کہ تم نے کب اور کس پولیس انسپکٹر کو قتل کر کے یہ گن قبضے میں لی تھی‘‘۔
میں نے اطمینان کی گہری سانس بھری۔ معاملہ بالآخر میری مرضی کے رخ پر آرہا تھا۔ لیکن اس سے آگے کی پیش رفت میں کم از کم امر دیپ کے علم میں نہیں لانا چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے سکھبیر کو کہا۔ ’’میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں تمہیں جو کچھ بتاؤں گا، اسے سن کر میرے حوالے سے تمہارے سارے شکوک دور ہوجائیں گے اور تم مطمئن ہوکر میری تجاویز پر یقیناً ٹھنڈے دل سے غور کرو گے۔ لیکن میرا خیال ہے امر دیپ بھائی کو معاملات کی گہرائی میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے باری باری ان تینوں کی طرف دیکھا۔ امر دیپ مجھے تذبذب میں گرفتار نظر آیا، جبکہ ڈاکٹر چوہان اور سکھبیر مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے امر دیپ کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’بھائی، میں ان کے تمام خدشات دور کردوں گا۔ انشأاللہ میں اور سکھبیر تھوڑی ہی دیر میں دوستوں کی طرح آپس میں باتیں کر رہے ہوں گے۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جاکر اطمینان سے ہرمندر صاحب میں حاضری لگائیں اور باقی مذہبی رسوم ادا کریں۔ میں فارغ ہوکر آؤں گا تو اکٹھے لنگر کھائیں گے‘‘۔
امر دیپ نے میری بات سن کر تائید میں سر ہلایا اور پھر سکھبیر اور ڈاکٹر چوہان سے اجازت لے کر وہاں سے چل دیا۔ میں نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سکھبیر اور ڈاکٹر چوہان کو بیک وقت مخاطب کیا۔ ’’میں اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ کئی بار کشمیر سے دلّی اور پنجاب کے چکر لگا چکا ہوں۔ اپنے وطن سے یہاں آنے کا ہمارا بنیادی مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح ہتھیار اکٹھے کرنا اور پھر انہیں ہند سرکار کی غاصب فوج کے خلاف جہاد میں مصروف اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچانا‘‘۔
میں نے اندازہ لگانا چاہا کہ سکھبیر اور ڈاکٹر چوہان میری باتوں کو کس حد تک سچ سمجھ رہے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر چوہان تو کافی حد تک قائل نظر آیا، البتہ سکھبیر کا چہرہ بدستور تاثرات سے عاری تھا۔
قدرے توقف کے بعد میں نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’اپنی ایسی ہی ایک مہم کے دوران چند ہفتے پہلے بٹھنڈا میں خفیہ پولیس کے گھاگ انسپکٹر گرداس سنہا مشکوک ہوکر ہمارے پیچھے لگ گیا تھا۔ وہ ہمیں پکڑ کر خفیہ پولیس کے اڈے پر لے گیا تھا۔ لیکن ہم موقع ملتے ہی اسے اور اس کے چار پانچ ساتھیوں کو قتل کر کے جان بچاکر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ ریوالور اسی موذی پولیس افسر کی نشانی ہے۔ وہاں سے چار اسٹین گنیں اور ان کا ایمونیشن بھی ہمارے ہتھے لگا تھا، جو ہم کشمیر بھجواچکے ہیں۔ مجھے یقین ہے تمہارے لیے اس بیان کی تصدیق کرنا مشکل نہیں ہوگا‘‘۔
میں اپنی باتوں کے دوران اس کے چہرے کے تاثرات میں تیزی سے آتی تبدیلی بخوبی بھانپ سکتا تھا۔ مجھے لگا کہ میرا کام بن گیا ہے۔ یعنی میں اسے اپنی اصلیت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ لیکن سکھبیر میرے اندازے سے زیادہ گھاگ ثابت ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’بٹھنڈا میں داروغہ گرداس اور اس کے سنتریوں کی ہلاکت کا واقعہ میرے علم میں ہے۔ لیکن صرف تمہارے کہنے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ یہ واردات تم نے ہی کی تھی؟ یہ ساری معلومات تو پنجاب کی خفیہ پولیس کے ہر چھوٹے بڑے کارندے کے علم میں ہو گی۔ نہ ہی تمہاری اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ یہ ریوالور واقعی گرداس سنہا کا ہی ہے‘‘۔
میں نے اپنا تحمل برقرار رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میںنے سروس ریوالور کے میرے قبضے میں ہونے پر تمہاری طرف سے شک کے اظہار پر یہ واقعہ تمہیں سنایا ہے۔ ورنہ میں اس بارے میں ہرگز زبان نہ کھولتا۔ بہرحال، مجھے یقین ہے تم پٹیالا میں مٹھو سنگھ کے منیجر اور گورکھے سیکورٹی گارڈ کی ہلاکت والے واقعے سے ضرور واقف ہوگے‘‘۔
اتنا کہہ کر میں نے توقف کر کے اس کا ردِ عمل جانچنے کی کوشش کی۔ اس تمام وقت کے دوران میں نے پہلی بار اسے واضح طور پر چونکتے دیکھا۔ تاہم اس نے خود کو سنبھالنے میں دیر نہیں لگائی اور مجھے گھورتے ہوئے بولا۔ ’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہوکہ ……‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مستحکم لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، یہ کام میں نے ہی اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ ہمارا اصل مقصد اس عورتوں کے بیوپاری شیطان مٹھو سنگھ کی قید میں موجود اپنی دو کشمیری بہنوں کو رہاکروانا تھا۔ اس کے یہ دونوں کارندے تو اتفاقاً مارے گئے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭