ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر اپنے بارہ مئی کے خط میں قمر زمانی کو لکھتے ہیں:
آہ! آخر مئی سے اب جون (قمر زمانی نے پہلے مئی میں ملنے کا وعدہ کیا تھا، پھر جون پر ٹال دیا) ہوگیا۔ یوں ہی آج کل میں قیامت نہ آجائے۔ ’’ہم ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کریں گے‘‘۔ کیا سچ۔
کھاؤ تو قسم میرے لہو کیآہ، خدا جانے کیوں باور نہیں آتا۔ خیر زندگی ہے تو یہ چند دن بھی گزر جائیں گے۔ خدا اس خواب کی تعبیر پوری کرے۔ کہو آمین۔
ہائے اللہ یہ انیس دن کیسے کٹیں گے۔
مختلف اخبارات اور رسائل نقاد پر ریویو کر رہے ہیں۔ اس وقت تک سب سے اچھا ریویو ’’گلچین‘‘ نے کیا ہے، (جو آج آپ کے خط کے ساتھ ہی مجھے ملا اور جسے حضرت ریاض خیر آبادی نکالتے ہیں، جسے میں نقاد میں نقل کر رہا ہوں۔
گلچین نے آپ کی ’’جاندار پتی‘‘ (قمر زمانی کا مختصر سا مضمون جو اپریل 17ء کو نقاد میں شائع ہوا) بھی اپنے دامن میں لے لی ہے۔ یعنی ریویو کے ساتھ نقل کی ہے۔ اس کے بعد خطیب دہلی (ہفتہ وار خطیب، دہلی سے ملا واحدی صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا۔ نیاز فتحپوری اس کے قلمی معاون تھے) کا دلکش ریویو ہے۔
’’ستارہ صبح‘‘ نے اپنی تازہ اشاعت میں نقاد پر تفصیل سے نگاہ ڈالی ہے اور آپ پر بھی نظر اعتقاد ہے، جس کا جواب آپ کو نقاد کے ذریعہ دینا چاہئے اور جلد ارشاد ہو تو ’’ستارہ صبح‘‘ بھیج دوں۔ یہ بھی لکھئے گا کہ بذریعہ رجسٹری روانہ کروں یا معمولی طور پر۔
’’الناظر‘‘ (یہ لکھنئو سے ظفرالملک نکالتے تھے۔ نقاد اور نقاد کے قلمی معاونین سے اس کی خوب چلتی تھی) نے آپ پر اور نقاد پر نہایت ناپاک نگاہ ڈالی ہے۔ مئی کے پرچے میں خوب زہر اگلا ہے۔ بے نقط گالیاں دی ہیں۔
جن کا میری رائے میں سوائے اس کے کچھ جواب نہیں ہوسکتا۔
’’مہ نورے فشاند و سگ بانگ می زند‘‘
آپ کو دیکھنا بھی نہ چاہئے۔ اس لئے اسے بھیجنے کا خیال بھی نہیں۔ ہاں آپ کے دہلی گزٹ دہلی نے بھی بہت کمینہ حملہ مجھ پر اور آپ پر کیا ہے۔ جواب کی حد تک جواب بھیجنا تھا۔ مگر میں نے ان بھونکنے والوں کی کچھ پروا نہیں کی۔ آپ قطعاً نظر انداز کر دیجئے۔
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیںاور اخبارات نے جو ریویو کئے ہیں، وہ قابل ذکر نہیں۔ سب نے معمولی تعریف کی ہے۔ عام طور پر آپ کی نسائیت میں شک کیا جاتا ہے اور لوگ باور نہیں کرتے کہ یہ مضامین ایک عورت لکھ سکتی ہے۔ اسی لئے اکثر پڑھے لکھے لوگ آپ کا پتہ، نشان اور صحیح نام دریافت کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ زیادہ تر یہی خیالات آپ کی نسبت ’’ستارہ صبح‘‘ نے بھی ظاہر کئے ہیں۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان تمام شکوک و شبہات کا تسکین بخش جواب آپ کی طرف سے نقاد میں جلد شائع ہو جائے۔ ورنہ آپ جانتی ہیں تمام دنیا دلگیر نہیں اور میں بدگمان طبیعتوں کو کس طرح یقین دلاؤں کہ آپ مرد نہیں عورت ہیں اور عورت بھی کیسی۔
مجھ کو مجھ سے چھین لینے والیحامد حسن قادری نے نقاد میں آپ پر بہت پاکیزہ نگاہ ڈالی ہے، جسے پڑھ کر میں خوش ہوں اور نقاد میں شائع کرنے پر مجبور ہوں۔ آپ بھی اسے جلد دیکھ سکیں گی۔ انہوں نے بھی آپ کی نسائیت میں شک کیا ہے اور عورت سے یہ خیالات منسوب کرنے میں وہ متامل ہیں۔ لیکن نہایت شریفانہ اور مہذب پیرایہ اختیار کیا ہے۔ جس سے آپ کی تنقیض نہیں تو صیف نکلتی ہے۔
بہرحال میری رائے ہے کہ ’’ستارہ صبح‘‘ اور قادری کی رائے دیکھ کر آپ کو ایک مضمون لکھ دینا چاہئے۔ جس سے لوگوں کو اطمینان ہوجائے اور یہ بحث ہمیشہ کیلئے ختم۔
ہائے، آپ کو خط لکھتا ہوں تو ختم کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ باتیں نکلتی ہی آتی ہیں۔ اک آپ ہیں کہ چند سطروں سے زیادہ کبھی مجھے نہیں لکھتیں۔ وہ بھی مدت بعد۔ اچھا یہ صحبت ختم، پھر ملیں گے۔
خدا کرے یہ خط آپ کو مل جائے اور جواب حسب وعدہ جلد آئے کہ مجھے اظہار آروزو پر مجبور ہونا پڑے۔
سراپا شوق’’دلگیر‘‘ دلگیر نے اپنے اس طویل خط میں دو تین باتوں یعنی ایک اپنے اضطراب، دوسرے قمر زمانی سے ملنے کی تدبیر، تیسرے قمر زمانی کی طرف سے لوگوں کے شکوک کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ قمر زمانی نے دلگیر کے خط مرقومہ 12 مئی کے جواب میں مختصراً لکھا۔
20 مئی 17ءمیں اور آپ سے خفا ہو جاؤں۔ یہ کیا کہا۔ مگر اس کا کیا علاج کہ میری مجبوریاں آپ کو میرے خلوص کی طرف سے اکثر بدگمان کر دیتی ہیں۔ اس سے پہلے میں لکھ چکی ہوں کہ کن پریشانیوں میںگھری رہی اور غالباً آپ نے یقین بھی کرلیا ہوگا۔ میں ابھی تک یہیں ہوں۔ آپ اطمینان فرمائیں۔ میں فکر سے خالی نہیں ہوں۔ دیر ہو جانے میںکوئی حرج نہیں۔ اگر تاخیر کا انجام کامیابی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ نامراد نہ رہوں گی۔ بعض صورتیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں کہ رمضان (ماہ جون) سے پہلے شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن یہ مسرت کیا کم ہے کہ یہ زمانہ… حال سے مجبور رہے گا کہ اب کے عید کسی کی محبت میں ہوگی۔ شوال کا پہلا ہفتہ ابھی سے نوٹ کرلیں۔
مضمون بھی جلد روانہ کرتی ہو۔
کیا میری خط و کتابت کا علم مسز دلگیر کو ہے۔ اگر ہے تو ان کا کیا خیال ہے اور اگر آپ نے اس وقت تک ذکر نہیں کیا تو آخر سوچا کیا ہے اور کب تک وہ آگاہ نہ ہوگی۔ کیا میں آپ کی فیملی کے حالات پوچھ سکتی ہوں کہ عزیزوں کو جواب دے سکوں۔ اگر ضرور مجبور کرے۔
بیتاب ’’قمر‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post