مبارک صفات:
حضرت رجاء بن حیوۃؒ پر ایک نعمت الٰہی یہ بھی رہی کہ وہ کئی برسوں تک وزیر رہے۔ بادشاہ بدل جاتے، لیکن کوئی بادشاہ ان کو نہ بدلتا تھا۔ بنو اُمیہ کے اکثر خلفاء کے وزیر رہے، جس کی ابتدا عبد الملک بن مروان سے ہوئی اور انتہا عمر بن عبد العزیزؒ پر۔ لیکن سلیمان بن عبد الملک اور عمر بن عبد العزیزؒ کے ساتھ دلی تعلق باقی خلفاء کی نسبت زیادہ رہا۔
حق تعالیٰ نے ان کو کچھ صفات ایسی عطا فرمائی تھیں، جن کی بنا پر تمام بادشاہوں کے نزدیک ان کا ایک خاص مقام تھا۔
(1) ان صفاتِ حمیدہ میں ایک صفت سچائی تھی، ہر حال میں سچ بولنا۔
(2) اپنی نیت میں اخلاص۔
(3) سمجھ داری سے مشورہ دینا، اپنے بڑوں کا یا دوستوں کا مزاج دیکھ کر مشورہ دینا، اپنی رائے بڑوں کی رائے کے مخالف ہو تو رائے دیتے وقت سمجھ داری و دانش مندی کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ استعمال کرنا۔ بعض اوقات فوری رائے دینے کے بجائے کچھ وقت گزار کر رائے دینا یہ سب سمجھ داری کے طریقے ہیں۔
(4) مشکل و پیچیدہ حالات میں بالکل نہ گھبرانا، بلکہ حکمت و دانائی سے ان حالات پر قابو پا لینا۔
(5) ان سب خصوصیات کے علاوہ ایک بڑی خوبی خدا تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی تھی کہ کسی خلیفہ سے دنیاوی لالچ کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
ایک اجنبی کی رجاء بن حیوہؒ کو نصیحت:
خلفائِ بنو اُمیہ کے ساتھ ان کا تعلق رب تعالیٰ کی رحمت ثابت ہوا اور خود ان کے لیے بھی عزت و اکرام کا باعث بنا۔ آپ نے حکمرانوں کو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت دی اور نیکی کے راستے ان کو بتلائے اور برے کاموں سے ہمیشہ انہیں روکتے رہے اور ان پر برائیوں کے دروازے بند کرنے کے لیے ہمیشہ کوشش فرماتے رہے۔ حکمرانوں کو ہمیشہ حق وصداقت کی راہ آسان کر کے دکھلائی، باطل اور برے کاموں کی برائی ان کے دل میں بٹھانے کی ہمیشہ کوشش کی اور ان کے دل میں خدا جل جلالہ اور رسول اقدسؐ کی اطاعت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ ہمیشہ ڈالتے رہے۔
حضرت رجاء بن حیوہؒ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے یہ بات واضح کردی، کہ ان کا خلفاء سے تعلق کا مقصد یہ تھا کہ ان کو دین پر لائیںِ، خیر و بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کریں۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے ساتھ لوگوں کے ہجوم میں کھڑا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک شخص ہجوم میں سے تیزی سے گزرتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور یہ شخص خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بارعب بھی تھا۔ میں نے سوچا یہ خلیفہ سے ملنے کے لیے بے تاب ہے، صفوں کی چیرتا ہوا ہماری طرف آرہا ہے، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل میرے سامنے آگیا اور میرے پہلو میں آ کھڑا ہوا، مجھے سلام کیا اور خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا:
اے رجائ! تو اس شخص کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ اے رجاء میری بات ذہن نشین کرلو۔ جس کا کسی سلطان کے ساتھ قریبی تعلق ہو اور وہ اس تعلق کو بھلائی کے لیے استعمال کرے تو یہ اس کے لیے بہت زیادہ بہتر ہے، ورنہ یہ بہت بڑا شر ہے اور بہت زیادہ برائی کا سبب ہے۔ تم اپنے اس تعلق کو اپنے لیے اور بادشاہ کے لیے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرو۔اور یہ بات یاد رکھو! کہ جو کسی ایسے نادار، کم زور، یا غریب، مفلس، اور کنگال کی کوئی ضرورت سلطان کے ذریعے پوری کرادے، کہ وہ خود اپنی ضرورت سلطان کے پاس نہیں لے جا سکتا، تو قیامت کے دن رب تعالیٰ ضرورت پوری کرانے والے کے حساب میں آسانی کردے گا۔ اے رجاء یاد رکھو! جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے، رب تعالیٰ اس کی ضروت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔اے رجائ! خوب اچھی طرح جان لو! کسی مسلمان شخص کے دل میں خوشی پیدا کرنا رب تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ میں غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا، جی چاہتا تھا کہ وہ کہتا رہے اور میں سنتا رہوں۔ واقعی باتیں بڑی نصیحت والی اور اہم تھیں۔
لیکن خلیفہ نے آواز دی: ’’رجاء بن حیوہ کہاں ہیں۔‘‘
’’امیر المؤمنین! میں یہاں موجود ہوں۔‘‘
انہوں نے مجھ سے کسی چیز کے متعلق پوچھا، میں نے جواب سے فارغ ہونے کے فوراً بعد اس اجنبی کی طرف دیکھا، تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھا، میں نے بہت ڈھونڈا، لیکن اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post