بیروزگاری کے ساتھ ساتھ میرا ایک بچہ پیدائشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کے عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی۔ جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کردی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے حضور سر سجود ہوگئی اور گڑ گڑا کر خوب دعائیں کیں۔ رب کریم نے میری دعائیں قبول فرما لیں اور دوسرے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹرسیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلامعاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور رب کے خاص فضل سے یہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ تندرست ہو گیا اور میری جان میں جان آئی… لیکن آہ!! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا۔ آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ’’جمہوری‘‘ ملک کی آزاد عدالت نے فیصلہ یہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہو گا اور تہذیبی اعتبار سے انہیں نقصان پہنچے گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے مگر رب کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں اپنے بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیئے گئے۔ اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے رب تبارک و تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور تبلیغ دین میں منہمک ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ ساری محرومیوں کے باوجود میں ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی…
مگر میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی باعمل مسلمان سے عقد ثانی کر لینا چاہئے کہ عورت کے لئے تنہا زندگی گزار نامناسب و مستحسن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کر لی۔ عدالت نے میری رقوم واگزار کردی تھیں۔ چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں۔
مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے تھے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں۔ میں تمہارے لئے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لئے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے اسے جو بھاری رقم دی تھی، چونکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لئے وہ بھی اس نے ہضم کر لی اور اس کی مدد سے جلدہی دوسری شادی رچالی…
طلاق کے چند ماہ بعد خدا نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا دس برس کا ہے۔ وجیہہ، شکیل اور بڑا ذہین ہے، اسے ہی میں دیکھ دیکھ کر جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو خدا کے فضل سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی رب ہی کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔
امریکہ میں اس وقت قرآن کے ستائیسں ترجمے دستیاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے، فون پر عربی کے کسی اسکالر سے معلوم کر لیتی ہوں۔ خدا کاشکر کہ میں مختلف کتب حدیث یعنی بخاری، مسلم ابو داؤد اور مشکوٰۃ کا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہوں اور اسلام جو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لئے مختلف مسلمان علماء کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔
میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن حدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو، وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post