اس بار موسم سرما میں دنیا کے اکثر حصوں میں سردی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، آسمان نے پانی کے لئے بھی اپنا دہانہ کھول دیا ہے، سعودیہ سمیت صحرائے عرب میں بھی بارش برس رہی ہے، رب کی خاص رحمتیں ہو رہی ہیں، البتہ امریکہ میں برف اور آسٹریلیا میں زیادہ بارشوں سے کچھ نقصان بھی ہوا ہے، لیکن یہ اس نقصان کے مقابلے میں کچھ نہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے دنیا کے اکثر حصوں میں خشک سالی کی وجہ سے ہو رہا ہے، پانی تو ویسے بھی زندگی ہے، پانی سے ہی یہ کائنات وجود میں لائی گئی ہے اور اس کے بغیر زمین پر زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو عام طور پر بے وقوف سمجھا جاتا ہے، بلکہ گوگل کو تو امریکی سینیٹ میں اس بات کا جواب دینا پڑا کہ سرچ انجن میں ایڈیٹ لکھنے پر ٹرمپ کی تصویر کیوں سامنے آجاتی ہے، ظاہر ہے جواب یہی تھا کہ اس پر گوگل کا کنٹرول نہیں، اس کا سرچ انجن ان چیزوں کو یاد رکھتا ہے جو زیادہ تر صارفین کسی کے لئے استعمال کرتے ہیں، اب دنیا کے لوگ ٹرمپ کو بے وقوف کے طور پر سرچ یا یاد کرتے ہیں تو اس میں گوگل کا کیا قصور۔ خیر ٹرمپ کو جس بھی بات سے یاد کیا جاتا ہے، اس سے قطع نظر موجود موسم پر امریکی صدر نے جو ٹوئٹ کیا ہے اور جس طرح سائنسدانوں کا مذاق اڑایا ہے، اس سے ہمیں اتفاق کرنا چاہئے۔ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا: ’’اگلے چند روز میں دلکش مِڈ ویسٹ میں ہوا کا درجہ حرارت منفی 60 سے بھی نیچے گر جائے گا، جو آج تک کا سب سے کم درجہ حرارت ہے اور لوگ چند منٹ کے لیے بھی باہر نہیں جا پائیں گے۔ آخر گلوبل وارمنگ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ پلیز جلدی سے واپس آؤ، ہمیں تمہاری ضرورت ہے‘‘۔ یعنی دوسرے لفظوں میں انہوں نے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں بارشیں و برفباری کم ہونے اور موسم گرم ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے سائنسدانوں کا مذاق اڑایا ہے، جو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کی تباہی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ٹرمپ کو قدامت پسند مسیحی سمجھا جاتا ہے۔ اس ٹویٹ سے لگتا ہے کہ وہ رب العالمین پر یقین رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ دنیا سائنسدانوں کی پیش گوئیوں سے تباہ نہیں ہوگی، بلکہ یہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اس کا خالق اسے قائم رکھنا چاہئے گا، لیکن سائنسدانوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کو مادیت میں تلاش کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ مادے سے ہر چیز وجود میں آئی ہے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ مادہ کہاں سے آیا؟ تو منہ میں انگلیاں دبا لیتے ہیں، ویسے ہر چیز مادے سے وجود میں آنے کی دریافت بھی سائنسدانوں نے نہیں کی، بلکہ ساڑھے چودہ سو برس قبل قرآن پاک میں رب نے یہ بات بتا دی تھی۔
ہمارے رب نے ہر چیز خود تخلیق کی ہے، لیکن اس کے لئے جواز بھی دیا ہے، تاکہ انسان اسے دیکھ سکے، اس کے بارے میں سوچ سکے، مثلاً موت وہ خود دیتا ہے، لیکن اس کے لئے ہم بیمار ہوتے ہیں، حادثے کا شکار ہوتے ہیں، اسی لئے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’چاڑے تاپ تے مارے آپ‘‘ یعنی رب العالمین زندگی تو خود ہی واپس لیتے ہیں، لیکن اس کے لئے تاپ یعنی بخار کو وجہ بنا دیتے ہیں۔ موت ہی نہیں، کائنات کی ہر چیز میں اس طرح کے جواز رب العالمین نے رکھے ہوئے ہیں، ہاں لیکن وہ کچھ چیزیں انسانی عقل سے ماورا بھی کرتا ہے، مثلاً نبی کریمؐ کو جب راتوں رات بیت المقدس اور پھر عالم بالا میں لے جایا گیا اور صبح ہونے سے قبل ہی واپس مکہ بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے جب یہ بات قریش کے لوگوں کو بتائی تو وہ مذاق اڑانے لگے۔ ان کا ایک ٹولہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس جا پہنچا۔ ان سے سوال کیا کہ حضرت بیت المقدس جانے کیلئے کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اچھا گھوڑا ہو اور تیز رفتاری سے سفر کیا جائے تو پندرہ روز۔ اسی طرح واپسی کے پندرہ روز۔ اس پر اہل قریش نے کہا اگر کوئی یہ کہے کہ میں ایک رات میں وہاں سے ہو کر آگیا ہوں، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ اس پر اہل قریش نے اپنی طرف سے بہترین چال چلتے ہوئے کہا کہ تو پھر تمہارے یار یعنی نبی کریمؐ تو کہہ رہے ہیں کہ وہ کل رات کو بیت المقدس سے ہوکر آگئے ہیں؟ جس پر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں تاریخی جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ اگر یہ بات میرے یار محمد مصطفیؐ نے کہی ہے تو پھر درست ہے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے دوست خدا کے رسول ہیں اور خدا جو چاہے کر سکتا ہے۔
واپس آتے ہیں بارشوں کی طرف، جن کی وجہ سے پاکستان میں بھی کئی برسوں بعد بارانی علاقوں کے کاشت کاروں کے چہروں پر رونق اور خوشی نظر آرہی ہے۔ یہ بارشیں ایسے وقت پر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، جب گندم کی فصل کو اس کی شدید ضرورت تھی، جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو پنجاب کے بالائی علاقے جو بارانی بھی ہیں، میں سردیوں کی جھڑی لگا کرتی تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ بارشوں نے منہ موڑ لیا، کئی کئی روز تک جاری رہنے والی جھڑی تو چھوڑیں سارا موسم سرما کسان آسمان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا رہتا تھا، لیکن بارش نظر نہیں آتی تھی، گندم کی فصل سوکھ جاتی تھی، وہ بیج جو کسان نے اس امید پر بوئے ہوتے تھے کہ ان سے حاصل ہونے والی فصل سے وہ پورا سال اپنے گھر کا اناج چلائے گا، اس کا بڑا حصہ مویشیوں کو کھلا دیا جاتا تھا، تاکہ سوکھتی ہوئی فصل سے کچھ تو حاصل ہوجائے، یہ تو فصل کا معاملہ ہے، جہلم اور چکوال جیسے بارانی اضلاع میں تو دسمبر سے مارچ تک کئی علاقوں میں پینے اور استعمال کیلئے پانی کی بھی قلت ہو جاتی تھی، ہر سال لوگوں کو اپنے بور مزید گہرے کرانے پڑرہے تھے، زمین میں پانی تیزی سے نیچے جا رہا تھا، کنوئوں میں پانی کیلئے انتظار کرنا پڑتا تھا، ایک گھرانہ بھر لے تو دوسرے کے لئے ایک سے دو گھنٹے بعد پانی اترکر آتا تھا، یہ صورتحال مارچ تک رہتی تھی اور پھر اپریل میں جب گندم کی بچی کھچی فصل پکنے کے قریب ہوتی تھی تو تھوڑی بہت بارش ہو جاتی تھی، اس سے پینے کے پانی کا مسئلہ تو کچھ حل ہو جاتا تھا، لیکن بچی کھچی گندم کی فصل تباہ ہو جاتی تھی، کیوں وہ وقت اس کے پکنے کا ہوتا تھا، کچھ ایسی ہی صورت حال ایبٹ آباد کے دوست بھی بتاتے تھے کہ ان کے ہاں بھی سردیوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، بارشیں اور برفباری نہ ہونے کی وجہ سے تالاب اور چشمے خشک ہو جاتے ہیں، لیکن اس بار رب العالمین نے بہت مہربانی کی ہے، کئی علاقوں میں تو پندرہ برس کے بعد برفباری ہوئی ہے، جبکہ بارانی علاقوں میں اس بار تین جھڑیاں لگ چکی ہیں، جھڑیاں بھی ایسی کہ زمین میں پانی کی سطح بلند کر گئی ہیں، اگر تیز بارش ہو تو پانی بہہ کر نکل جاتا ہے، اس سے زمین چارج نہیں ہوتی، لیکن اس بار بارش دھیمی دھیمی لگی رہی ہے، جو زمین کو چارج کر گئی، کیوں کہ دھیمی بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ ایک دوست بتارہے تھے کہ ان کے گائوں میں قبر کے لئے کھدائی کی گئی تو چار فٹ پر پانی نکل آیا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں بھی کئی برسوں کے بعد برفباری ہوئی ہے، جس سے امید ہے بلوچستان کے دارالحکومت کی پہچان ہنا جھیل بھی پھر بھر جائے گی۔ زمین میں پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، یہ سب رب العالمین کی خاص مہربانی ہوئی ہے، جس پر ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس کے ساتھ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ اگرچہ ہم انسان زمین کا ماحول خراب اور اسے تباہ کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں، لیکن کائنات کے مالک کے اپنے فیصلے ہیں اور جب تک اس نے یہ کارخانہ حیات زمین پر چلانا ہے، وہ ہمیں ہمارے کرتوتوں کی سزا تو دیتا رہے گا، لیکن پھر وہ مہربان ہی ہے اور ہماری زندگی کیلئے اسباب بھی پیدا کرتا رہے گا۔ ہمیں سائنسدانوں کی بھی سننی چاہئے کہ وہ بھی اس رب کی دی ہوئی عقل کی مدد سے ہمیں مشورے دیتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سب کچھ مادیت ہی نہیں ہے، کچھ چیزیں انسانی عقل سے ماورا بھی رکھی گئی ہیں۔ سائنسدانوں کی اکثریت چوں کہ رب کو نہیں مانتی، اس لئے وہ ہر چیز کو مادیت میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جب ماورائے عقل چیزیں ہوتی ہیں تو ٹرمپ جیسوں کے طنزیہ ٹوئٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک اچھی ڈاکومنٹری رب کا وجود ثابت کرنے کے حوالے سے کسی نے بھیجی تھی۔ قارئین آپ کے لئے بھی اسے تحریری صورت دے دی ہے، جس میں اس کائنات کے اسرار و رموز پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خالق کائنات اس کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ ملحدین خصوصاً سائنسدانوں کے لئے اس میں سائنسی لحاظ سے اچھے جواب پوشیدہ ہیں، اگر وہ سمجھیں تو۔
’’سورج فضا میں مقرر راستے پر پچھلے 5 ارب سال سے 600 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل بھاگا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان نو سیارے، 27 چاند اور لاکھوں میٹرائد کا قافلہ بھی اسی رفتار سے جا رہا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی چیز پیچھے رہ جائے یا غلطی سے ادھر ادھر ہو جائے، سب اپنی اپنی راہ پر نہایت تابعداری سے چلے جا رہے ہیں، اب بھی اگر کوئی کہے کہ چلانے والا کوئی نہیں، ڈیزائن ہے، لیکن ڈیزائنر کوئی نہیں، کنٹرول ہے، لیکن کنٹرولر کوئی نہیں، بس یہ سب ایک حادثہ ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ اسی طرح چاند زمین سے تین لاکھ ستر ہزار میل دور ہے، لیکن وہ سمندروں کے اربوں کھربوں ٹن پانیوں کو ہر روز دو بار مد وجزر سے ہلاتا رہتا ہے، تاکہ اس میں موجود کھربوں کی تعداد میں سمندری مخلوق کو آکسیجن ملتی رہے، پانی صاف ہوتا رہے، اس میں تعفن پیدا نہ ہو، ساحلی علاقوں کی صفائی ہوتی رہے اور ان میں جمع ہونے والا گندا پانی گہرے سمندروں میں جاتا رہے، پھر سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے، پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ اور نہ کم نمکین، بلکہ ایک توازن برقرار رکھے ہوئے ہے، تاکہ اس میں چھوٹے بڑے آبی جانور تیر سکیں اور مرنے کے بعد ان کی لاشوں سے بو نہ پھیلے، سمندر کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کے دریا اور نہریں بھی بہتی ہیں، زیر زمین بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں، جو کھارے پانی کے کھلے سمندر کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، لیکن ان کے درمیان ایک غیبی پردہ ہے، جو انہیں ملنے نہیں دیتا، تاکہ میٹھا پانی میٹھا رہے اور کھارا کھارا۔ اس توازن کو کون برقرار رکھتا ہے؟ (ظاہر ہے رب العالمین)۔ کیا پانی کی اپنی سوچ تھی یا چاند کا اپنا فیصلہ؟ ساڑھے چودہ سو سال قبل جب جدید سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا، کوئی لیبارٹری تھی اور نہ یونیورسٹی، عرب کے صحرا میں ایک شخصیت (نبی کریمؐ) اٹھ کر کہتی ہے کہ سورج اور چاند سب ایک حساب کے پابند ہیں (سورہ رحمن5) وہ سمندروں کی گہرائیوں کے بارے میں بتاتا ہے کہ ان کے درمیان برزخ ہے، جو ان کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔ (سورہ رحمن20)۔ اس وقت جب ستاروں کو لٹکے ہوئے چراغ کہا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ ستارے مدار میں تیر رہے ہیں۔ (سورہ یٰسین 40) جب سورج کو ساکن تصور کیا جاتا تھا تو وہ کہتا ہے کہ سورج اپنے مقرر شدہ انجانے راستے پر چلا آرہا ہے۔ (یٰسین 38)۔ جب کائنات کو جامد کہا جاتا تھا تو وہ بتاتا ہے کہ یہ پھیل رہی ہے۔ (سورہ الذریات 47)
اسی طرح نومولود بچے کو کون سمجھاتا ہے کہ رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟ ماں کے دل میں اس کیلئے محبت کون ڈالتا ہے کہ چڑیا اپنے بچے کیلئے باز سے لڑنے پر تیار ہو جاتی ہے؟ بکری کے بچے پیدائش کے ساتھ ہی ماں کے دودھ کی طرف لپکتے ہیں، انہیں یہ سب کون سکھاتا ہے؟ ماں کے دلوں میں کون محبت ڈال دیتا ہے کہ اپنی چونچوں میں دانہ ڈال کر بچے کو کھلاتی ہے؟ پھر کیا زمین خود اس قدر عقل مند ہے کہ اس نے خود بخود اپنے محور پر ایک خاص ڈگری پر چھپ گئی تاکہ سارا سال موسم بدلتے رہیں تاکہ اس پر بسنے والوں کو ہر طرح کی سبزیاں اور پھل سارا سال ملتے رہیں؟ زمین نے اپنے اندر شمالاً جنوباً طاقتور مقناطیسی نظام بھی کیا خود قائم کرلیا ہے؟ تاکہ اس کے اثر سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں، جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹس آکسائید میں بدل کر بارش کے ذریعے پودوں کو قدرتی کھاد فراہم کرے۔ سمندر اور فضا میں جہاز اس مقناطیسی نظام کی مدد سے اپنا راستہ اپنائیں۔ آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیست سے ٹکرا کر واپس ہو جائیں تاکہ زمین پر مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے، پھر کیا زمین، ہوائوں، پہاڑوں اور میدانوں نے مل کر سورج کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا ہے تاکہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں؟ ہوائیں اربوں کھربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں اور پھر یہ پانی خشک میدانوں کو سیراب کرنے کیلئے برسے، جب سردیوں میں کم ضرورت ہو تو یہ پہاڑوں میں برف کی صورت میں جمع ہوجائے اور گرمیوں میں ضرورت کے وقت پگھل کر ندی نالوں اور دریائوں کے ذریعے انسان سمیت دیگر زمین مخلوق کی ضرورت پوری کرے۔ اسی طرح انسانی جسم کی پروگرامنگ کس نے کی ہے؟ اربوں خلیات کس کے حکم پر کام کر رہے ہیں؟ دل کا پمپ کہاں سے توانائی حاصل کرکے مسلسل چلتا رہتا ہے؟ گردوں کو خون کی صفائی کے کام پر کس نے لگایا ہے؟ دماغ کو کس نے جسم کا کنٹرول دیا ہوا ہے؟ ظاہر ہے یہ سارا نظام چلانے والی کوئی ہستی ہے اور وہی ہستی ہے اللہ اللہ اللہ۔
٭٭٭٭٭
Prev Post