پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے کے بعد مسافروں کی گاڑی ڈہرکی، میرپور ماتھیلو، گھوٹکی، پنوعاقل اور روہڑی سے گزرتی ہوئی اس شہر میں داخل ہوتی ہے، جس کو خیر پور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ وہ خیر پور جہاں پونم کی راتوں کا تھکا ماندہ چاند کھجوروں کے سرسراتے پتوں پر سر رکھ کر سو جاتا ہے۔ وہ خیر پور کل پیرپاگارو اور آج قائم علی شاہ کے خاندان کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے۔ حالانکہ خیر پور کی اصل پہچان تو سچل سرمست نامی وہ ہفت زباں شاعر ہے، جس نے سات زبانوں میں درد کو دہرایا ہے۔ وہ درد جو ابھی تک اس شہر میں دیوانوں کی طرح اپنے پاؤں میں پڑی ہوئی زنجیر کو گھسیٹتا چلتا رہتا ہے اور اس گھڑی کچھ وقت کے لیے رک جاتا ہے، جب کسی گاؤں میں چلی ہوئی بندوق کی آواز پر آسمان میں پرندے اڑتے نظر آتے ہیں۔ اس دن بھی ببول کے بے قرار درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے چیختے اور چلاتے ہوئے اڑے تھے، جس دن ایک غریب بچی کے گھر میں ایک بدنام مجرم داخل ہوا اور اس نے اس بچی پر کلاشنکوف کا پورا برسٹ ختم کر دیا۔ وہ بچی جو گاؤں کی تھی، مگر اس کا نام شہری تھا۔
رمشا! کس قدر رم جھم کرنے والا نام ہے۔ وہ بچی اپنے نام کی طرح معصوم اور خوبصورت تھی۔ وہ رمشا جس کی ناک پتلی اور جس کی آنکھیں بڑی تھیں۔ وہ بڑی آنکھیں اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہیں۔ وہ بچی جو رنگین کپڑوں سے بہت محبت کرتی تھی، اس بچی کو سفید کفن میں لپیٹ کر دھرتی میں دفن کر دیا گیا ہے۔ وہ بچی جس کی عمر تیرہ برس تھی۔ اس تیرہ برس کی رمشا کو قبیلے کے عادی مجرم نے ماں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا۔ اس کے چھوٹے اور پتلے سے جسم کو چھلنی ہوتے ہوئے دیکھا اس ماں نے جو اب تک صدمے میں ہے۔
سندھ کے سماج پر تحقیق کرنے والے محققین کا مؤقف ہے کہ اب اس دھرتی پر ’’کاروکاری‘‘ کے واقعات کم ہوتے ہیں۔ مگر عورتوں کے تحفظ کے بل پاس کروانے والی سندھ اسمبلی کے ممبران خیر پور کی معصوم رمشا کو یہ الزام لگنے اور اس الزام میں قتل ہونے سے نہ بچا پائے۔ راقم الحروف اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سندھ حکومت کوئی جن نہیں کہ ہر واقعے کو روکنے کے لیے پہنچ جائے، مگر جہاں ایک معصوم بچی کا قاتل سات دنوں تک صرف اس لیے گرفتار نہ ہو پائے، کیوں کہ اس کا تعلق وسان قبیلے سے تھا تو پھر اس سندھ حکومت سے جواب طلبی ضروری ہو جاتی ہے، جس سندھ حکومت کے چہیتے منظور وسان کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے فلور پر معصوم رمشا کے قتل کے خلاف حزب اختلاف کو قرارداد پیش کرنے سے روکا گیا۔ کیا ہوتا اگر معصوم اور مقتول رمشا کے لیے سندھ اسمبلی کے ممبران فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے؟ مگر جمہوریت کے نعرے لگانے والے وڈیرے اور جاگیردار اپنے گاؤں میں ہٹلر اور مسولینی سے زیادہ فاشسٹ بن کر چلتے ہیں۔
وہ وڈیرے جن کے منہ میں دو زبانیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ زباں جو وہ شہر میں اور میڈیا کے سامنے بولتے ہیں۔ اردو کو سندھی تڑکا لگا کر تھوڑا سا ہنسنے ہنسانے والا ماحول پیدا کرنی والی زبان سننے والوں نے ان وڈیروں کو سندھ کے دیہاتوں میں نہیں دیکھا۔ وہ اپنے سامنے کسی کسان کو تو کیا، کسان کے تعلیم یافتہ بیٹے کو کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ پیپلز پارٹی کے وہ وڈیرے جو بے نظیر بھٹو کے قتل ہونے سے قبل زرعی بینکوں کے مقروض تھے، اب ان کے پاس گاؤں میں ایسے بنگلے ہیں، جن میں داخل ہونے کے بعد کسی کو یہ محسوس نہ ہوگا کہ وہ اندرون سندھ میں ہے۔ ان بنگلوں میں مہمان بن کر جانے والوں کو ہر طرح سے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ کراچی کے ڈیفنس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہ وڈیرے جب کراچی میں ہوتے ہیں تب بڑے مہذب اور شائستہ ہوتے ہیں، مگر کراچی سے نکلتے ہی ان کی طبیعت اور ان کا لہجہ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ جس طرح آسیب زدہ شخص دورہ پڑنے کے بعد بالکل ایک دوسرا شخص بن جاتا ہے، ویسے ہی ہیں یہ وڈیرے، جب وہ کراچی سے نکلتے ہیں۔ وہ جیسے جیسے اپنے گاؤں کے قریب پہنچتے ہیں، ویسے ویسے ان کی شخصیت تبدیل ہونے لگتی ہے۔ شہروں میں شائستہ لہجہ رکھنے والے وڈیرے جب گاؤں میں قدم رکھتے ہیں، تب ان کی آنکھوں سے آگ اگلنے لگتی ہے۔ جب پراڈو سے پاؤں نیچے رکھتے ہی ان کا استقبال وہاں کے ڈاکو اور مجرم کرتے ہیں، تب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اصل پاور وہ ہیں۔ وہ پاور جو انسان کو ظالم اور پاگل بنا دیتی ہے۔
اب سندھ میں وہ دور نہیں کہ ووٹ لینے کے لیے دامن پھیلایا جائے۔ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کے وڈیرے ووٹ خریدا کرتے ہیں اور جو ووٹ نہیں بیچتا، اس سے ووٹ چھین لیتے ہیں۔ اب سندھ کے دیہاتوں میں سیاسی کامیابی دولت اور دہشت سے حاصل کی جاتی ہے۔ دولت اس کرپشن سے آتی ہے، جس نے سندھ کو گزشتہ دس برس سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے اور دہشت ان کرمنل لوگوں سے حاصل کی جاتی ہے، جو حکومت کے چہیتے وڈیروں کی وجہ سے گرفتار نہیں ہوتے۔
وہ شخص جس نے خیرپور کے علاقے ’’کنب‘‘ میں گھر میں داخل ہوکر معصوم بچی کو قتل کیا، وہ شخص بھی وسان قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کو اتنے دنوں تک گرفتار ہونے سے بچانے کا سبب بھی پولیس میں سیاسی مداخلت ہے۔ اندرون سندھ میں وڈیرے تھانے کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اس دنیا کا موجودہ دستور ہی یہ ہے کہ ایس ایس پی اور ڈی سی ہمیشہ ایم پی اے اور ایم این اے کی مرضی سے مقرر ہوتے ہیں۔ ان بیوروکریٹس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس کی فرمائش پر لائے گئے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں عوام کی نہیں، بلکہ اس خاص شخص کی خدمت کرنی ہے، جس نے انہیں مقرر کروایا ہے۔ شہروں میں بھی پولیس اور انتظامیہ کی صورت حال اچھی نہیں ہے، مگر اندرون سندھ کے دیہاتوں میں تو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے صاحبان کٹھ پتلیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہاں کوئی فریادی بغیر کسی وزٹنگ کارڈ یا چٹھی کے تھانے پر نہیں جاتا۔ اندرون سندھ میں وڈیروں نے پورے سماج کو جکڑ کر رکھا ہے۔ وہاں پولیس کو جرأت نہیں کہ وڈیرے کی اجازت کے بغیر کسی کو گرفتار کرے یا چھوڑ دے۔ پولیس کو مکمل معلومات ہوتی ہے کہ روپوش ملزم کہاں چھپا ہوا ہے؟ پولیس افسر کی اس سے بات بھی ہوتی ہے۔ ملاقات بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کی گرفتاری اوپر سے ملنے والی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ معصوم رمشا کے قاتل کی گرفتاری بھی پولیس کا کارنامہ نہیں۔ آئی جی سندھ نے رمشا وسان کے قاتل کی گرفتاری پر خیر پور پولیس کو شاباس دی ہے، مگر ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی گرفتاری ڈیل کا نتیجہ ہے۔ رمشا کا قاتل اچانک گرفتار نہیں ہوا، بلکہ اس سے گرفتاری دلوائی گئی۔ اس نے وسان بنگلہ سے گرفتاری اس لیے پیش کی کہ پولیس اس پر کوئی سختی نہیں کرے گی۔ وہ جیل میں بھی عیاشی کے ساتھ رہے گا۔ جب رمشا قتل کیس بھول کی دھول بن کر اڑ جائے گا، تب رمشا کے قاتل کی آزادی کا راستہ نکالا جائے گا۔ مجرم بہت ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ذوالفقار وسان اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کبھی نہیں کرتا، مگر اس سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اس حالات کی نزاکت کو سمجھو اور پیش ہو جاؤ۔ اس وقت پورے صوبے میں احتجاج ہو رہے ہیں اور سرکار پر سخت دباؤ ہے۔ جب پریشر کم ہو جائے گا، تمہیں آسانی سے باہر لایا جائے گا۔ اس ضمانت پر ذوالفقار وسان نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا۔ وہ ذوالفقار وسان جس کے دامن پر رمشا کا خون پہلا خون نہیں تھا۔ وہ اپنے علاقے کا بدنام ترین کرمنل ہے۔ اس پر بیس مقدمات پہلے سے درج ہیں۔ ان مقدمات میں خون کے مقدمات بھی ہیں۔ مگر وہ پھر بھی آزاد پھر رہا تھا۔ اس کو اندازہ نہ تھا کہ رمشا کے قتل اس کے لیے ہاتھ کی ہتھ کڑی اور پاؤں کی بیڑی بن جائے گا۔
اور یہ سب اس سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا، جس میں رمشا کے لیے جذباتی پوسٹس اَپ لوڈ ہوتی رہیں۔ رمشا کے لیے پی پی مخالف سیاسی پارٹیوں نے قاتل کی گرفتاری کے لیے مطالبات کیے، مگر پیپلز پارٹی مکمل طور پر خاموش رہی۔ پیپلز پارٹی نے وسان قبیلے کے اشتہاری ملزم کو بچانے کی پوری کوشش کی، مگر جب اسے محسوس ہوا کہ اگر پولیس نے یہ کارروائی نہیں کی تو رینجرز خیر پور کے اس کچے میں اتر سکتی ہے، جہاں اب ڈاکوؤں کا پہلے جیسا زور نہیں رہا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ دریا کے کنارے ڈاکوؤں کے بسیرے ہوتے تھے۔ اب سندھ میں پہلے کی طرح ڈاکو راج نہیں ہے۔ اب پرانے ڈاکو کچے کی زمینیں آباد کرکے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔ رینجرز کو معلوم ہے کہ سندھ میں قانون کے ساتھ کس طرح کھیلا جاتا ہے اور قانون کے ساتھ کون کھیلتا ہے؟ اگر سندھ حکومت کو رینجرز کی مداخلت کا خوف نہ ہوتا تو ابھی تک معصوم رمشا کے قاتل گرفتار نہ ہوتے۔ یہ سوشل میڈیا میں اٹھنے والا احتجاج کا طوفان تھا، جس نے حکومت سندھ کو اس حد تک مجبور کیا کہ رمشا کے قاتل ذوالفقار وسان نے خود چل کر اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کیا۔
سانحہ ساہیوال پر سخت ترین احتجاج کرنے والے بلاول زرداری نے رمشا قتل کیس پر خاموشی اختیار کی۔ جب کہ سوشل میڈیا میں نہ صرف فیس بک پر بلکہ ٹوئٹر پر بھی ’’جسٹس فار رمشا‘‘ کا ٹرینڈ کئی دن سے جاری تھا۔ مگر اس بھیانک قتل پر پیپلز پارٹی خاموش رہی۔ پیپلز پارٹی چاہتی تھی کہ یہ شور چند دنوں کے بعد ختم ہو جائے گا اور رمشا کی لاش اس طرح گم ہو جائے گی، جس طرح دیہی سندھ کے دہشت زدہ ماحول میں صرف جینے کے لیے انسان انصاف کو بھول جاتے ہیں۔ سندھ میں وڈیراشاہی کی وحشت نہ صرف موجود ہے، بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرون سندھ میں خوف کا خطرناک طوفان چل رہا ہے۔ اس طوفان میں اگر کسی گھر کے پیڑ کی کوئی شاخ ٹوٹ جاتی ہے اور اس شاخ پر بنا ہوا آشیانہ بکھر جاتا ہے تو اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔
’’آشیانے تو ہوتے ہی بکھرنے کے لیے ہیں۔ پرندے تو پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کا شکار کیا جائے…‘‘
ایسا کہتے ہیں وحشت کو قائم رکھنے والے وڈیرے!!
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post