اہل لاہور کے فخر نے سب ہی کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ دہی کلچوں، چکڑ چنوں، حلوہ پوریوں کے ناشتوں کے بعد لسی کے یہ بڑے بڑے گلاس خالی کرنے والے زندہ دل لاہوریوں کے نزدیک جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان کے اس کلئے سے سیلانی کا یہ تقریباً بارہواں جنم تھا اور یہ بھی کرشمہ تھا کہ ایک روز پہلے جنم لینے والا ’’کاکا‘‘ دوسرے دن ہی لاہور ریلویز اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑی گرین لائنز ایکسپریس کے ٹی ٹی بابو کی تلاش میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ اسے واپس اسلام آباد جانا تھا۔ ریل کے چھوٹنے میں کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ ٹکٹ گھر سے کہا گیا تھا کہ گرین لائنز ایکسپریس کی ٹکٹ اسی گاڑی کے ٹی ٹی بابو سے ملے گی۔ یہ سن کر سیلانی نے اپنے میزبان اور جماعت الدعوۃ کے ترجمان ندیم اعوان کو بمشکل رخصت کیا۔ وہ خدا کا بندہ مُصر تھا کہ پہلے سیلانی ٹکٹ لے لے، پھر وہ مطمئن ہوکر لوٹے گا۔ سیلانی نے اسے یقین دلانے کی پوری کوشش کی۔ اب وہ سچ مچ واپس جا رہا ہے، پلٹے گا نہیں۔ لیکن جب اس کا اصرار ختم نہ ہوا تو اس نے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی الوداعی جھپی ڈال لی۔
اس شریف نوجوان کو سیلانی نے چوبیس گھنٹوں سے ساتھ لیا ہوا تھا۔ پہلے وہ اسے لے کر شیخوپورہ کے پنڈ چھاپاں والی لے گیا، جہاں شاہد محمود جٹ اور ان کے کزن نعیم بھائی نے سرد رات میں دیسی ککڑ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دیسی ککڑ اور خالص دیسی گندم کی روٹیوں نے جانے کب شکم سیر کیا پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ تو حلق تک پیٹ بھرنے کے بعد مقتول ککڑ نے باہر نکل کر اذان دینے کی کوشش کی تو تب سیلانی نے ہاتھ کھینچا۔ رات کے اس ککڑ عشائیہ کے بعد صبح فجر کے بعد نعیم بھائی نے مقتول بکرا، حلیم، چکڑچنے، گاجر کا حلوہ، دہی نان اور دیسی گھی والی روٹیوں کا ناشتہ سامنے کیا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ تو ناشتہ لذیذ تھا، پھر پہلوانوں کا سا جثہ رکھنے والے نعیم بھائی کا رعب بھی تھا۔ سیلانی نے آستینیں چڑھا لیں اور امتحان میں پورے نمبر لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے آخر میں میزبانوں کی تقلید میں گجریلے پر دہی ڈال کر حیاتی میں پہلی بار دہی کا منفرد استعمال کیا، لیکن اس کے بعد وہ مزید کچھ کھانے کی پوزیشن میں نہ رہا اور اب پوزیشن یہ تھی کہ ناشتے کو ساڑھے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے، لیکن سیلانی سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ کجا یہ کہ اسے بھاگنا پڑ رہا تھا۔ ریل گاڑی چھوٹنے والی تھی۔ اسے انجن کے قریب نیلی وردی والے ٹی ٹی بابو دکھائی دیا۔ سیلانی بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور ہانپتے ہوئے کہنے لگا:
’’سر… سر وہ ٹکٹ… مل جائے گا؟‘‘
’’کس کلاس کا؟‘‘
’’اکانومی۔‘‘
’’ہاںمل جائے گا، آپ جلدی سے بوگی میں پہنچو، ٹرین چلنے والی ہے۔‘‘
’’بوگی کہاں ہے؟‘‘ سیلانی نے گھبرا کر پوچھا۔
’’وہ سب سے آخر میں لگی ہے۔‘‘
’’او نہیں…‘‘ سیلانی نے بوگی کی طرف دوڑ لگا دی۔ ادھر پلیٹ فارم پر گارڈ کی سیٹی کے بعد گرین لائنز نے بھی سرکنا شروع کر دیا۔ سیلانی نے معدے میں موجود شرارتی بکرے کی شرارتوں کی پروا کئے بنا دوڑ لگائی اور بمشکل بوگی میں سوار ہو کر سانسیں درست کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ضرار بھائی کھڑے ہیں۔ ضرار بھائی دائیں بازو کے سینئر صحافی اور نوکر شاہی، اشرافیہ کے کڑے ناقد ہیں۔ انہیں دیکھ کر سیلانی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ لاہور سے اسلام آباد کا سفر زیادہ نہیں، لیکن پھر بھی پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سیلانی کو خوشی ہوئی کہ ضرار بھائی سے گپ شپ میں سفر کی طوالت کا پتہ نہیں چلے گا۔
سیلانی نے آگے بڑھ کر ضرار بھائی کو سلام کیا اور بیگ لے کر ایک طرف رکھ دیا۔
’’تم کدھر بھئی؟‘‘ ضرار بھائی نے بے تکلفی سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک دوست سے ملنا تھا، کل آیا تھا، آج واپس جا رہا ہوں۔‘‘
انہوں نے سر ہلایا اور کوٹ کی جیب سے گولڈ لیف نکال کر دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ سیلانی ایک طرف ہو کر ٹی ٹی بابو کا انتظار کرنے لگا، جو بمشکل چند منٹوں کا ہی تھا۔ ٹی ٹی بابو نے ٹکٹ کاٹ کر سیٹ نمبر بتا دیا۔ سیلانی اور ضرار بھائی آمنے سامنے بیٹھ گئے اور پھر دنیا جہاں کے موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔ انہوں نے اک جہاں دیکھ رکھا ہے۔ سانحہ علی گڑھ کالونی کراچی، کراچی آپریشن، سوات آپریشن، وزیرستان آپریشن سے لے کر سانحہ
آرمی پبلک اسکول تک بڑے بڑے سانحات اور واقعات رپورٹ کر چکے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی بریکنگ نیوز بھی سب سے پہلے ضرار بھائی ہی نے دی تھی اور اب سیلانی کو اپنی ریٹائرمنٹ کی بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔ سیلانی کے لئے یہ حیرت کی بات تھی۔ صحافت اور امامت میں ریٹائرمنٹ کا تصور نہیں۔ صحافی ریٹائرڈ ہوتا ہے، نہ مسجد کا امام۔ یہ صرف جبری ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔ ضرار بھائی نے ریٹائرمنٹ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ یکسانیت سے بیزار آچکے تھے۔ ایک عرصہ ہو گیا تھا ایک جیساکام کرتے ہوئے… پھر بات سے بات نکلتی رہی اور چھک چھک کرتی ریل چلتی رہی۔ گفتگو کے دوران جب انہیں سگریٹ کی طلب ہوتی تو اٹھ کر دروازے کے پاس چلے جاتے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ سگریٹ سلگانے گئے اور ڈبے میں چائے قہوے والا بیرا آگیا۔ سیلانی نے اسے دو سبز چائے لانے کے لئے کہا اور سیل فون چیک کرنے لگا۔ گزشتہ دنوں وہ کافی مصروف رہا تھا اور دوستوں کے پیغامات اور ویڈیوز نہیں دیکھ سکا تھا۔ ابھی موقع ملا تو وہ سارے پیغامات اور ویڈیو کلپ دیکھنے لگا۔ کچھ دوستوں نے یوم کشمیر پر بیرون ملک ہونے والے مظاہروں کے ویڈیو کلپ بھیج رکھے تھے، جو بڑے جاندار تھے۔ اس بار کشمیری حریت پسندوں نے دنیا کو اپنی جانب اچھا خاصا متوجہ کیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اے پی سی، سری لنکا میں ہائی کمیشن کے سیمینار، تہران میں کشمیر ثقافتی کانفرنس اور پھر میلان میں ہونے والا زبردست مظاہرہ حیران کن تھا۔ سیلانی کو یہ سب دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ چلو حکومتی سطح پر بھی کچھ ہل جل تو شروع ہوئی۔
تھوڑی دیر میں ضرار بھائی پھیپھڑوں مییں نکوٹین اتارکر آگئے اور گفتگو کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، وہیں سے جڑ گیا۔ گرین لائنز تیز رفتاری سے فولادی پٹڑیوں پر بچھا فاصلہ سمیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی اور ضرار بھائی سیلانی کا ہاتھ پکڑے ماضی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے جو کچھ دیکھ رکھا تھا، بتا رہے تھے۔ اسی اثناء میں بیرا دو کپوں میں کھولتا پانی اور سبز چائے کا تعویذ لئے آگیا۔ سیلانی نے تعویذ کو پانی میں غوطے دے کر قہوہ تیار کیا اور چسکیاں لینے لگا۔ اکانومی کلاس کا ڈبہ ہیٹر اور ائیرکنڈیشنڈ سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے موسم خاصا سرد ہو رہا تھا۔ گرین لائنز وی آئی پی ٹرین ہے۔ اس لئے اس کی کھڑکھیوں کے شیشے سلامت تھے، لیکن پھر بھی ٹھنڈ احساس دلا رہی تھی کہ ابھی جاڑا گیا نہیں ہے۔ ایسے میں قہوے کی چسکیاں مزہ دے رہی تھیں، لیکن یہ سارا مزہ اس وقت کافور ہوگیا، جب بیرے نے 80 روپے طلب کئے۔
’’یار! پیسے کچھ زیادہ نہیں؟‘‘
جواب میں اس نے ان دس ہزار روپوں کی دہائی دے ڈالی، جو فی پھیرا اس نے ریل گاڑی کے ٹھیکیدار کو دینے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے گرین لائنز ایکسپریس کے ٹھیکیدار کو کراچی سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے کراچی تک ایک پھیرے کے دس ہزار روپے دیئے ہیں، جو ظاہر ہے مسافروں سے ہی وصول کرے گا۔ یہ عجیب منطق تھی، جس پر ساتھ بیٹھے بابا جی نے کہا دوسری ریل گاڑیوں میں ٹھیکیدار نہیں ہوتے، وہاں چائے تیس روپے کی دی جاتی ہے، یہاں ساٹھ روپے لئے جاتے ہیں، جو چپس کا پیکٹ تیس روپے کا ہے، وہ پچاس روپے میں فروخت کرتے ہو۔
’’کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، جو جی چاہیں مرضی کریں۔‘‘ بابا جی نے بے بسی میں لتھڑا ہوا جملہ ساتھی مسافروں کی سماعتوں میں داخل کیا۔
’’ہر جگہ یہی حال ہے، بندہ کس کس بات کا رونا روئے۔‘‘ یہ دوسرا تبصرہ تھا۔
80 روپے کے قہوے نے گفتگو کا موضوع بدل دیا تھا۔ اس گراں فروشی نے وہاں بیٹھے سب ہی مسافروں کے منہ میں کوکین ڈال رکھی تھی، لیکن حیرت کی بات تھی کہ سب بڑبڑا بھی رہے تھے اور اسی بیرے سے چیزیں بھی
خرید رہے تھے۔ سیلانی کو یاد آیا کہ اس نے بیت الخلاء پر ٹرین منیجر کا نام اور فون نمبر کا اسٹیکر لگا دیکھا ہے۔ وہ اٹھ کر گیا اور منہ بنا کر رہ گیا۔ کسی نے اس اسٹیکر کو کھرچ کر آدھا فون نمبر غائب کر دیا تھا۔ سیلانی دوسری بوگی میں چلا گیا۔ وہاں اسے ایک جگہ منیجر کا فون نمبر مل گیا۔ اس نے نمبر نوٹ کیا اور اسے فون کرنے لگا۔ دوسری طرف گھنٹی بج رہی تھی، لیکن کوئی کال وصول نہیں کر رہا تھا۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ سیلانی نے وزیر ریلویز شیخ رشید صاحب کے اشتہار میں دیا گیا نمبر نکالا۔ یہ نمبر اس نے راولپنڈی کے پلیٹ فارم پر شیخ صاحب کے اشتہار سے لیا تھا۔ پلیٹ فارم پر لگی ٹی وی اسکرین سے شیخ صاحب عوام کو بتا رہے تھے کہ عمران خان صاحب کے وژن کو آگے بڑھانے کے لئے گرین کلین اور ماہ خوش اخلاقی منایا جا رہا ہے۔ کوئی بھی شکایت ہو تو 03305555556 پر درج کروائیں۔ سیلانی نے اس نمبر پر جعفر ایکسپریس کی نصف گھنٹہ تاخیر کی شکایت درج کرائی تھی۔ جس پر نامعلوم صاحب نے کہا تھا تھوڑی بہت دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔ اب سیلانی نے ان سے پوچھنا تھا کہ گرین کلین مہم میں کیا مسافروں کی جیبوں کی تھوڑی بہت صفائی بھی شامل ہے اور کس حد تک شامل ہے؟ لیکن اس نمبر پر کسی نے کال وصول نہیں کی۔ سیلانی نے دوبارہ ٹرین منیجر کا نمبر ملایا، دوسری تیسری کوشش پر سیلانی کے کان میں ہیلو کی آواز سنائی دی۔ سیلانی نے جھٹ سے سلام کیا اور مدعا عرض کرتے ہوئے کہا ’’جناب! آپ کے ہوتے ہوئے ہم چالیس روپے کا قہوہ اور ساٹھ روپے کی چائے پی رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا جناب! آپ سے یہ پیسے کس نے لئے ہیں؟‘‘
’’جسے آپ نے گاڑی میں چائے قہوہ دینے کی اجازت دے رکھی ہے، وہ کہتا ہے ہم نے ٹھیکیدار کو ایک پھیرے کے دس ہزار روپے دیئے ہیں۔‘‘
’’اچھا میں ابھی دیکھتا ہوں۔‘‘
اور پھر پندرہ منٹ میں وہی بیرا تازہ تازہ ہونے والے رنڈوے کی سی شکل بنائے آموجود ہوا۔ اس کے پیچھے ایک پہلوان نما شخص بھی تھا۔ اس نے آتے ہی پکڑے جانے والے پیشہ ور جیب کترے کی طرح چہرے پر یتیمی لاتے ہوئے کہا ’’سرجی! معاف کر دیں، میں پیسے واپس کر دیتا ہوں۔‘‘
’’کس کس کو پیسے واپس کرو گے؟ تم نے تو کراچی سے یہی اندھیر لگا رکھی ہے، تمہارا منیجر کہہ رہا ہے چائے پچیس روپے کی ہے اور تم ساٹھ روپے کی دے رہے ہو۔‘‘
’’سر! سنگل ٹی بیگ والی تیس اور ڈبل ٹی بیگ والی ساٹھ روپے کی ہی ہے۔‘‘
’’او بھئی! کس اصول سے ساٹھ کی ہوگئی، تمہارا منیجر کہہ رہا ہے کہ چائے پچیس روپے کی ہے اور تم تیس روپے کہہ رہے ہو، چلو تیس ہی سہی، دوسرا ٹی بیگ ڈلوانے والے سے دس روپے اضافی لے لو، وہ دودھ نہیں مانگ رہا، چینی نہیں لے رہا، صرف ایک ٹی بیگ ہی تو مانگ رہا ہے، اس کے ساٹھ روپے کس حساب سے ہوگئے؟‘‘
اب پہلوان حمایتی مدد کو آگیا ’’سر! انہیں گن کر ٹی بیگ دیئے جاتے ہیں، خیر معاف کر دیں، غلطی ہوگئی، آئندہ ایسا نہیں ہوگا، آپ اپنے پیسے واپس لے لیں۔‘‘ وہ اضافی لئے گئے بیس روپے واپس کرنے لگا۔ لیکن ضرار بھائی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’پیسوں کی بات نہیں، یہ طریقہ غلط ہے۔‘‘ ساتھ ہی دیگر مسافر بھی بول پڑے۔ ایک اُنیس گریڈ کے افسر ساتھ سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو اس کی شکایت کرکے ہی رہوں گا۔ بیرے نے بڑی مشکل سے منتیں ترلے کرکے جان چھڑائی۔ دراصل اسلام آباد کا مارگلہ ریلوے اسٹیشن بھی قریب آگیا تھا۔ سب ہی نے اترنا تھا۔ کون جھک جھک کرتا۔ ٹرین کی رفتار دم توڑ رہی تھی۔ اسی لئے مسافروں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ مہنگی چائے نہیں دے گا۔ اس نے جھٹ سے وعدہ کر لیا۔ ظاہر ہے وعدہ کرنے میں اس کا کیا جاتا تھا۔ مسافروں سے جان چھڑانے کے بعد بیرا خوشی خوشی واپس پلٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں مارگلہ کے پلیٹ فارم پر ریل گاڑی بھی آلگی۔ سب اترنے لگے اور سیلانی بھی یہ سوچتا ہوا اترنے لگا کہ سستی کاہلی کے گملے میں مایوسی اگانا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔ ہم کچھ کرنے سے پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہونا اور پھر واقعی کچھ نہیں ہوتا۔ یہی ایک کال اس ٹرین کا کوئی مسافر حیدر آباد میں کر لیتا تو ٹرین کے سارے مسافر اس لوٹ مار سے بچ جاتے۔ اس بیرے نے ہماری سستی، کاہلی اور قومی مزاج سے فائدہ اٹھا کر بھرپور دیہاڑی لگائی اور چونا لگا کر اتر گیا۔ سیلانی بھی ضرار بھائی کے ساتھ ساتھ نیچے اترا اور کراچی سے مسلسل لٹنے والے مسافروں کو سامان اٹھائے اسٹیشن سے باہر جاتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
Prev Post
Next Post