یہ کتنی دلخراش بات ہے کہ دنیا میں صرف تین ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں، جو جہیز کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ ان ممالک میں لاکھوں لڑکیاں صرف اس لئے گھر بسانے سے محروم ہیں کہ والدین جہیز دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ افسوس لڑکیاں شادی کی امید میں جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہو جاتی ہیں۔ والدین اس غم میں وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہوتی، وہ معاشرے میں اپنے آپ کو بوجھ سمجھتی ہیں، جبکہ دوسری طرف معاشرے پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے حوالے سے ایک رپورٹ میری نظر سے گزری، جو حالیہ کچھ برسوں سے خواتین کے لئے انتہائی غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ جہیز سے ہونے والی اموات کے معاملے میں بھی یہ شہر سرفہرست ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دہلی ملک بھر میں درج جہیز مقدمات میں اول نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس جہیز کے2879 مقدمات درج کئے گئے۔ 125 بیٹیوں کی زندگیاں جہیز نہ دینے کی وجہ سے ختم کر دی گئیں۔ بنگلور میں 428 مقدمات اور 52 اموات ہوئی ہیں۔ حیدر آباد میں 1480 مقدمات درج ہوئی اور 93 لڑکیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ممبئی میں 602 مقدمات درج کئے گئے، 21 لڑکیوں کو قتل کرنے کا معاملہ سامنے آیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں جہیز کے 1756 مقدمات درج ہوئے، جن میں20 لڑکیوں کی موت ہوئی۔ کلکتہ میں 1005 مقدمے درج ہوئے، جن میں 15 لڑکیوں کی موت کی تصدیق کی گئی اور چنئی میں سب سے کم 221 مقدمے درج کئے گئے، جن میں 12 لڑکیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ اگر دیہی علاقوں کے اعداد و شمار بھی شامل کر لئے جائیں تو اور بھی خراب صورت حال سامنے آئے گی۔ کیوں کہ دیہی علاقوں میں جہیز سے ہونے والی اموات کے زیادہ تر مقدمات درج ہی نہیں ہوتے۔
اس رپورٹ میں جاری اعداد و شمار سے معاشرے کی موجودہ صورت حال کی ابتری کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں، جو ریکارڈ پر آئے ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد کا یہاں ذکر نہیں۔ والدین اپنی اور خاندان کی عزت کی خاطر پولیس رپورٹ نہ کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ہزاروں لڑکیوں کی موت کو حادثاتی قرار دے کر حقائق پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ تمام کوششوں اور جہیز مخالف مہمات کا اثر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سخت قوانین اور معاشرے میں بیداری کے باوجود جہیز سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ معاشرتی اصلاح کی کوششیں کیوں رائیگاں جا رہی ہیں۔
انہی باتوں کے پیش نظر دہلی کے کچھ درد مند افراد پر مشتمل ایک گروپ نے معاشرے کو جہیز کی رسم سے نجات دلانے کے لئے منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ اس گروپ نے طے کیا ہے کہ اسکولوں میں جا کر بچوں اور اساتذہ میں کام کریں اور وہاں بلڈ ڈونیشن کلب کے طرز پر کلب بنائیں اور نئی نسل سے عہد لیں کہ آنے والے دنوں میں جہیز کے خلاف عملی اقدامات کریں گے۔ بلا شبہ جہیز کی رسم سے معاشرے کو نجات دلانے کی غرض سے اٹھایا گیا یہ قدم قابل تحسین ہے۔ نوجوان نسل کی ذہن سازی اس انداز میں کی جانی چاہئے، تاکہ بڑے ہونے کے بعد جب وہ شادی کے مرحلے میں داخل ہوں تو وہ اس رسم کی مخالفت میں خود بخود سامنے آئیں۔ اس طرح کی کوششوں کو مزید منظم کرنے اور مثالی بنانے کی ضرورت ہے۔
جب جہیز سے ہونے والی اموات کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی و سماجی تنظیموں کی جہیز مخالف مہمات نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟ معاشرے میں پیدا ہونے والی تعلیمی بیداری کے باوجود اس وبا میں روز بروز اضافہ ہی کیوں ہو رہا ہے؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج کا وہ باشعور سمجھا جانے والا طبقہ، جو اس طرح کی اصلاحی کاموں کے لئے کوشاں نظر آتا ہے، اس کی اصل صورت حال کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عرصہ دراز سے جاری جہیز مخالف کوششوں کے نتیجے میں معاشرے میں ایسا کوئی انسانی گروپ وجود میں آ سکا ہے، جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے کم سے کم اپنے حلقے کو جہیز کی رسم سے پاک کر لیا ہے۔ نیز جہیز سے ہونے والی اموات اور زیادتی کے واقعات کی تحقیق اور تجزیئے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس طرح کے واقعات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر خواتین ہی ملوث پائی جاتی ہیں۔ گھر میں آنے والی بہو کو دن رات جہیز نہ لانے کا طعنہ دینے والی ساس ہوتی ہے یا پھر اس گھر کی بیٹی ہوتی ہے، جو کل کسی دوسرے گھر کی بہو بنے گی۔ یہ حالات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت ہی ایک عورت کی موت کا سبب بنتی ہے، لہٰذا اس پورے معاملے کا تجزیہ کرتے وقت یہ پہلو بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے۔
اصلاح حال کی کوشش میں خواتین کی حصہ داری متعین کی جائے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ آخر ساس بھی کبھی بہو تھی۔ ظاہر ہے یہ کام بہت آسان نہیں ہے۔ عملی اقدامات میں آنے والی معاشرے کی بے ہودہ روایتیں آڑے آئیں تو ان کو دور کرنا ہوگا۔ ہمارے سماجی اور مذہبی قائدین، جو جہیز سے پاک معاشرے کی خواہش کرتے ہیں، انہیں سب سے پہلے خود اپنے بچوں کی شادی بیاہ کو مثالی بنانا ہو گا۔ خاص طور پر لڑکوں کو جہیز کی رسم کے خلاف مہم چلانی ہوگی اور اس رسم کے سامنے چٹان بن کر کھڑا ہونا ہو گا۔ تبھی معاشرہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ ورنہ دہائیوں سے چلنے والی یہ کوششیں صدیوں بعد بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم عملی اقدامات کے لئے تیار ہیں؟ اصلاحی گروپوں کو بطور خاص اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اسلام کے نقطہ نظر سے جہیز کی کیا حقیقت ہے۔ اسلام میں جہیز لینا سخت منع ہے۔ اس لئے تو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی دختر حضرت فاطمہؓ کو جو جہیز دیا ہے، وہ آج تک تاریخ کے اوراق پر سنہرے حرفوں سے تحریر ہے، جو آج بھی مسلم معاشرے کے لئے نصیحت کا پیغام دے رہی ہے کہ اے اسلام کے ماننے والو! جہیز فاطمیؓ سے سبق حاصل کرو۔ یہ تمہارے لئے نصیحت ہے۔ پیغمبرؐ اسلام کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ دولت لے کر رسول اکرمؐ کے گھر آئی تھیں۔ وہ جہیز نہیں تھا۔ وہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے کاروبار کی آمدنی تھی۔ حضرت علیؓ نے اپنی بیٹی حضرت زینبؓ کی شادی جناب عبد اﷲؓ سے کی ہے، لیکن تاریخ میں کہیں جہیز کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اپنے دونوں صاحبزادے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی شادی کی ہے، لیکن جہیز نہیں لیا ہے۔
جناب زہر بانو ایران کے بادشاہ کی بیٹی تھی اور زوجہ ام رباب، یہ بہت امیر ترین تھیں۔ اپنی خواہش سے جو ہوا وہ لے کر آئیں، جہیز کے نام پر کچھ نہیں مانگا گیا۔ خلفائے راشدینؓ نے بھی جہیز لینے سے منع کیا ہے۔ ہر طرف آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جہیز ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ اس گرانی کے دور میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ انسان کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے۔ شادی کے تمام انتظامات میں کافی اخراجات اٹھتے ہیں۔ پھر فرمائشی جہیز کہاں سے دیا جا سکے گا؟ غربت کی وجہ سے جہیز کی فرمائش سے لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی ہے۔ کتنے پھول مرجھا گئے۔ کتنے والدین نے جان گنوا دی، اگر لڑکی جہیز لے کر نہیں جاتی ہے تو سسرال والے طعنے مارتے ہیں۔ زندگی بھر جہیز کے لئے اسے طعنے سنے پڑتے ہیں۔ کہیں اسے جہیز کی خاطر آگ کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
اسلام میں انسانیت پر بہت روشنی ڈالی گئی ہے، بلکہ اسلام میں انسانیت ہی سب کچھ ہے۔ لیکن آج مسلم معاشرے میں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جہیز کا رواج کینسر کی مانند ہے۔ پورا معاشرے اس مرض میں مبتلا دکھائی دے رہا ہے، جس کے پاس بہت بڑی رقم ہے، وہ جہیز دے کر نمائش کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا ہے اور جو غریب ہیں، وہ کہاں سے دولت لائیں؟ ان کی بیٹیوں کا کیا ہو گا؟ کیا وہ کنواری رہ جائیں؟ ضرورت ہے کہ ہر کوئی جہیز سے پرہیز کرے اور جہیز لینے اور دینے پر پابندی لگائے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو غریب کی بیٹیوں کا کیا بنے گا؟
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post