تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت عامر بن شراحیل شعبیؒ:
’’امام شعبیؒ بڑے عالم، مستند اور بردبار عظیم مذہبی رہنما تھے۔ ہر میدان میں ان کی عظمت کا لوہا مانا جاتا تھا۔‘‘
آپؒ کی ولادت اور تحصیل علم:
حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کو چھ سال گزر چکے تھے کہ مسلمانوں کے ایک خاندان میں دو جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک بہت زیادہ کمزور اور دبلا پتلا تھا۔ اپنے جڑواں بھائی کے ساتھ پرورش پانے کی وجہ سے اس کے جسم کی نشونما پوری طرح نہ ہو سکی تھی۔
لیکن جب یہی بچہ جب بڑا ہوا تو میدان علم وحلم، حکمت اور دینی سمجھ بوجھ میں کوئی بھی اس کا شریک نہ ہوسکا۔ یہی وہ عامر بن شراحیل حمیریؒ ہیں جو امام شعبیؒ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور جو اس زمانے کے مسلمانوں کے سب سے بڑے امام سمجھے جاتے تھے۔
امام شعبیؒ کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی، لیکن مدینہ منورہ ان کا دل پسند شہر تھا۔ یہ صحابہ کرامؓؓ سے ملنے اور ان سے علم حاصل کرنے اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ کا جہاد کی غرض یا رہنے کی خاطر گھر بنانے کے لئے کوفہ اکثر آنا جانا رہتا۔ اس طرح انہیں تقریباً پانچ سو صحابہ کرامؓ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔
بہت سے صحابہ کرامؓ سے حدیث روایت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جن میں سے حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ، حضرت نعمان بن بشیرؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عدی بن حاتمؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سارے صحابہ کرامؓ شامل ہیں۔
حق تعالیٰ نے امام شعبیؒ میں ایسی صفات رکھی تھیں جو حق تبارک و تعالیٰ کی قدرت کو یاد دلاتی تھیں، چھوٹی سی عمر میں ہی نہایت سمجھ دار، ذہین، ہر معاملہ کو بہت اچھی طرح سمجھنے والے تھے، قوت حافظہ اور قوت ذاکرہ( یعنی کسی چیز کو یاد کرنا اور وقت پر یاد آجانا) ان دونوں صفات میں رب تعالیٰ نے خصوصیت عطا فرما رکھی تھی۔ وہ خود بیان کرتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے کبھی کوئی بات کا غذ پر نہیں لکھی اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی شخص نے میرے سامنے حدیث بیان کی ہو اور وہ مجھے یاد نہ رہی ہو اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی شخص نے مجھے کوئی بات کہی ہو اور میں نے اسے دوبارہ دوہرانے کے لیے کہا ہو۔‘‘
امام شعبیؒ کو علم اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ علم و معرفت حاصل کرنے میں انتہائی محنت کرتے اور اس کی وجہ سے تکالیف و مشکلات کر برداشت کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے۔
وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے: ’’اگر ایک شخص کسی ایسی بات کو حاصل کرنے کے لیے جو اس کے مستقبل میں مفید ثابت ہو سکتی ہے، شام کے کنارے سے یمن کے کنارے تک دور دراز کا سفر اختیار کرے، تو میرے نزدیک اس کا یہ سفر ضائع نہیں گیا۔‘‘
علم میں بلند مقام:
امام شعبیؒ فرماتے ہیں
میں نے سب سے کم شعر و شاعری کا علم حاصل کیا، لیکن پھر بھی اگر پچھلے اشعار دوہرائے بغیر مہینے بھر نئے نئے اشعار سناتا رہوں تو سنا سکتا ہوں۔
کوفہ کی مرکزی مسجد میں امام شعبیؒ کا ایک علمی حلقہ قائم تھا، لوگ اس میں جوق در جوق شریک ہوتے، حالاں کہ اس وقت صحابہ کرامؓ بھی موجود تھے اور مسجد میں صبح شام آتے جاتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت ابن عمرؓ نے مسجد میں امام شعبیؒ کو غزوات کے واقعات بیان کرتے ہوئے غور سے سنا اور فرمایا:
جو واقعات اور حقائق یہ بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض سفروں میں، میں خود موجود تھا، اپنی ان دونوں آنکھوں سے ان سب چیزوں کو دیکھا اور دونوں کانوں سے سنا، لیکن میں اس طرح بیان نہیں کرسکتا، جس قدر تفصیل اور دل چسپ انداز میں یہ بیان کر رہے ہیں۔ امام شعبیؒ کے علم اور حاضر وماغی کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More