خلاصۂ تفسیر
اور (آگے مسلمانوں کی تسلی ہے کہ رنجیدہ نہ ہوا کریں، کیونکہ) وہ (شیطان) بدون خدا کے ارادے کے ان (مسلمانوں) کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتا (مطلب یہ کہ اگر بالفرض وہ شیطان کے بہکاوے سے تمہارے خلاف ہی کوئی تدبیر کر رہے ہیں تب بھی وہ ضرر بغیر مشیت ازلیہ کے تم کو نہیں پہنچ سکتا، پھر کیوں فکر میں پڑتے ہو) اور مسلمانوں کو (ہر امر میں) خدا ہی پر توکل کرنا چاہئے (آگے واقعہ پنجم کے متعلق حکم ہے، یعنی مجلس میں کچھ لوگ بعد میں آجائیں تو ان کے لئے جگہ کھولنے کا حکم ہے کہ) اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے (رسول اقدسؐ فرما دیں یا اولی الامر یا واجب الاطاعت لوگوں میں سے کوئی کہے) کہ مجلس میں جگہ کھول دو (جس میں آنے والے کو بھی جگہ مل جائے) تو تم جگہ کھول دیا کرو (اور آنے والے کو جگہ دیدیا کرو) خدا تعالیٰ تم کو (جنت میں) کھلی جگہ دے گا اور جب (کسی ضرورت سے) یہ کہا جائے کہ (مجلس سے) اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو (خواہ اٹھنے کے لئے اس غرض سے کہا جائے کہ آنے والے کے لئے جگہ کھل جائے اور خواہ اس وجہ سے کہا جائے کہ صدر مجلس اس وقت کسی مصلحت، مشورئہ خاص یا کسی ضرورت آرام یا عبادت وغیرہ سے تنہائی کی ضرورت ہو جو بغیر تنہائی کے مطلقاً نہ ہوسکیں یا کامل نہ ہوسکیں، بس صدر مجلس کے کھڑے ہونے کے حکم سے اٹھ جانا چاہئے اور یہ حکم غیر رسولؐ کے لئے بھی عام ہے۔ کذا فی الروح۔ پس صاحب مجلس کو ضرورت کے وقت اس کی اجازت ہے کہ کسی شخص کو اٹھ جانے کے لئے کہہ دے۔ البتہ اٹھنے کو نہ چاہئے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھ جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے (رواہ الشیخان) غرض حکم یہ دیا گیا کہ صدر مجلس کے کہنے سے اٹھ جایا کرو۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post