چین سی پیک کا اٹوٹ انگ ہے

0

نمائندہ امت
دوسری اور آخری قسط

معروف تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت سمیت سی پیک کے دیگر مخالفین چاہے کتنی سازشیں کرلیں، اس اہم پروجیکٹ سے چین کو الگ نہیں کر سکتے۔ ایک طرح سے سی پیک چین کا اٹوٹ انگ ہے۔ آصف ہارون راجہ کے انٹرویو کا دوسرا حصہ نذر قارئین ہے۔
س: کیا سی پیک میں چین کے کردار کو کم کرنا ممکن ہے؟
ج: دراصل انٹرویو کے پہلے حصے سے یہ غلط تاثر لیا جارہا ہے کہ جیسے سی پیک سے چین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سی پیک کے حوالے سے جو نیا گیم چل رہا ہے، اس کے تحت اس قسم کی سازش تو ہوسکتی ہے لیکن اس قسم کی سازش کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ سی پیک کا اوریجنل ڈیزائنر چین ہے۔ چین کی انوسٹمنٹ کے بغیر یہ پروجیکٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ جس نے پروجیکٹ ڈیزائن کیا اور پیسہ لگایا، اگر اسے ہی نکال دیں تو یہ پروجیکٹ بنیادی طور پر ختم ہوجائے گا۔ تاہم اس پروجیکٹ کو مزید وسیع اور مضبوط بنانے کے لئے ہم اس میں مزید شکر، چینی اور گڑ ڈال سکتے ہیں، جیسا کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ جس نے اسے شروع کیا، اسے لاتعلق کر دیا جائے۔ سعودی عرب کی طرف سے سی پیک کے لئے جو انوسٹمنٹ آرہی ہے اور اس سلسلے میں دیگر خلیجی ممالک سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ خوش آئند ہے۔ چین بھی اسے ویلکم کرتا ہے۔ لیکن بطور پارٹنر نہیں۔ کیونکہ پارٹنر اور سرمایہ کار میں فرق ہوتا ہے۔ 2014ء میں سی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان باہمی معاہدہ ہوا تھا، لہٰذا اگر بطور پارٹنر کوئی تیسرا ملک یا فریق اس پروجیکٹ کا حصہ بنتا ہے تو اس کے لئے ایک نیا معاہدہ کرنا ہوگا۔ تاہم تیسرے پارٹنر کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ سی پیک پروجیکٹ کو چین اور پاکستان ہی پارٹنرز کے طور پر لے کر آگے چلیں گے۔ باقی دوسرے ممالک اس پروجیکٹ میں سرمایہ کار کے طور پر حصہ لے سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی سرمایہ کاری کے لئے بھی پاکستان کو چین کی مرضی چاہئے۔ اس کی اجازت لینی ہوگی۔ لہٰذا حالیہ سعودی انوسٹمنٹ بھی چین کو اعتماد میں لئے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ تحفظات اور چیز ہیں۔ چین کو یہ تحفظات ہوسکتے ہیں کہ اس سرمایہ کاری کی آڑ میںکوئی اور گیم تو نہیں ہو رہا؟ سی پیک گوادر سے کاشغر پر ختم نہیں ہوجاتا۔ گوادر ٹیک آف پوائنٹ ہے اور گوادر کی اسٹرٹیجک اہمیت بھی ہے۔ سی پیک نے آگے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور پھر یورپ جانا ہے۔ اس کے بغیر چین کو سی پیک کا کیا فائدہ؟ وہ عالمی مارکیٹ تک شارٹ کٹ رسائی کے لئے سی پیک بنارہا ہے۔ سرمایہ کار کے طور پر جتنے ممالک پروجیکٹ میں شامل ہونگے، یہ وسیع ہوتا چلا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔
س: سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی سی پیک میں دلچسپی کا بنیادی سبب کیا صرف معاشی فائدے کا حصول ہے؟
ج: یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں، کیونکہ وہاں بادشاہت ہے۔ لہٰذا امریکہ کے زیر نگیں رہنا ان کی مجبوری ہے۔ اس مجبوری سے فائدہ اٹھاکر عرب ممالک کو امریکہ، ایران کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ لہٰذا ان ممالک کا سی پیک کی طرف آنا، ہوسکتا ہے کہ امریکی چال ہو۔ تاہم سی پیک میں عرب ممالک کی شمولیت کی ایک وجہ ان کی معاشی صورتحال بھی ہے۔ تیل پر عرب ممالک کا انحصار کم ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ تمام ممالک نئے ذرائع آمدن تلاش کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں ان کی معیشت کو فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اس وقت دنیا میں سی پیک سے بڑا اور منافع بخش کوئی دوسرا پروجیکٹ نہیں ہے۔ ایک اور اینگل یہ بھی ہے کہ ایران، یمن، داعش اور سب سے بڑھ کر امریکی دوغلی پالیسی کی وجہ سے خلیجی ریاستیں خود کو Vulnerable (کمزور) محسوس کر رہی ہیں۔ لہٰذا خلیجی ریاستوں کا سی پیک کی طرف آنے کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سی پیک میں حصہ ڈال کر اس نئے بلاک میں شامل ہوجائیں، جو چین، روس، ترکی اور وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ ایران کی بھی اس بلاک سے دوستی ہے۔ کیونکہ اب تک ایران کی بچت روس اور چین کی وجہ سے ہے۔ ان دونوں ممالک نے ہی اسے میزائل اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے لیس کیا ہے۔ جبکہ پابندی کے دور میں یہ دونوں ممالک ایران سے تیل خریدتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں قریباً ڈیڑھ برس قبل سعودی شاہ سلمان کی طرف سے پہلی بار روس کے دورے پر جانا اہم نکتہ ہے۔
س: اس سیناریو میں سی پیک کے لئے امریکی دلچسپی کو کس تناظر میں دیکھا جائے؟
ج: سی پیک کا پہلا فیز مکمل ہوچکا اور دوسرا فیز شروع ہونے والا ہے۔ یعنی یہ پروجیکٹ آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ سمجھ چکا ہے کہ وہ کوششوں کے باوجود سی پیک کی پرواز کو نہیں روک سکا اور پھر وہ افغانستان سے بھی جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے سی پیک کا حصہ بن جائے۔
س: جیسا کہ امریکہ سی پیک کا مخالف ہے اور اس حوالے سے وہ اکثر اپنے اتحادی بھارت کی زبان بولتا ہے۔ تو کیا یہ خدشہ نہیں کہ امریکہ سی پیک کا حصہ بن کر اس پروجیکٹ کو خراب کرنے کا ارادہ رکھتا ہو؟
ج: یہ بات خارج از امکان نہیں۔ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ سی پیک کے خلاف امریکہ نے ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ کے ذریعے پراکسی وار کی۔ پھر سی پیک کے ایسٹرن اور ویسٹرن روٹس کو لے کر پروپیگنڈہ کرایا۔ یہاں تک کہ اپنے حواریوں کے ذریعے یہ تک کہلوایا کہ سی پیک بھی ایسٹ انڈین کمپنی طرز کا ایک منصوبہ ہے۔ لیکن اس کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اب وہ سرمایہ کاری کی آڑ میں نئی چال چل سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے لئے ابھی تک گرائونڈ پہ امریکہ نے کچھ نہیں کیا ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ کر رہا ہے۔ ایک پیسہ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ کولیشن سپورٹ فنڈز بھی روک رکھے ہیں۔ جو امداد نہیں، بلکہ ہمارا حق ہیں۔ پھر امریکہ نے حال ہی میں الزامات لگاکر پاکستان کو جو نقصان پہنچایا تاحال اس کا ازالہ نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت جو کچھ مانگتا ہے، اسے دے رہا ہے۔ امریکہ نے ہر قدم پر ہمیں دھوکا دیا۔ کیا پتہ امریکہ ہمیں دوبارہ دھوکا دے رہا ہو۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ نئے انویسٹرکی شکل میں امریکہ سی پیک کا حصہ بنتا ہے تو ہم اس کی قیمت پر چین کو ناراض کر دیں۔ ریاست کی یہ طے شدہ فارن پالیسی ہے۔ اس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک چین اور امریکہ کی معاشی عداوت کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ جاری ہے اور جاری رہے گی۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دونوں ایک دوسرے کی مجبوری ہیں۔ چین کی سب سے بڑی انوسٹمنٹ امریکہ میں ہے۔ جبکہ امریکہ نے سب سے زیادہ قرضہ چین سے لے رکھا ہے۔
س: اس وقت سی پیک پوری دنیا کی نظر میں اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو دانشمندی سے اپنے کارڈز کھیلنا ہوں گے؟
ج: بالکل یہی بات ہے۔ سی پیک ہم پر اللہ کی مہربانی ہے۔ اس کے لئے ہم نے کوئی ڈپلومیسی نہیں کی۔ قدرت نے ایک تحفہ دیا ہے۔ سی پیک آج ایسا مقناطیس بن چکا ہے کہ ساری دنیا اس کی طرف کھنچتی چلی آرہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری چاہے کسی ملک کی طرف سے آئے، پاکستان کے فائدے میں جائے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم ایک بلاک کو دوسرے بلاک سے لڑانے پر لگ جائیں۔ کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے۔ چین کو امریکہ کے ساتھ ملایا۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ پھر یہ کہ سی پیک کا ٹائٹل ہی امن اور خوشحالی ہے، جو مشترکہ کوششوں کے ذریعے ممکن ہے۔ یہاں ایک اور وضاحت کرنا ضروری ہے کہ سی پیک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے متعلق پہلا فیز مکمل ہوچکا ہے، جس میں سڑکوں کی تعمیر اور گوادر کو ڈویلپ کرنا تھا۔ دوسرا فیز انرجی پروجیکٹ کے حوالے سے ہے، جس کے تحت ہر صوبے میں انرجی پروجیکٹ لگائے جائیں گے۔ گزشتہ دور حکومت میں ہی اس کے لئے جگہوں کا انتخاب کرلیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر انرجی پروجیکٹ بلوچستان میں تعمیر ہونا تھا، بلتستان میں نہیں۔ تاہم ابھی تک یہ تعمیر شروع نہیں ہوسکی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More