سرفروش

0

عباس ثاقب
سکھبیر سر جھکائے کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ کشمیریوں کو شیخ عبداللہ کی نہرو سے یاری نے مروایا۔ جبکہ ہمیں ظلم و ستم کا نشانہ بنوانے کے ذمہ داروں کی تعداد بہت زیادہ ہے‘‘۔
میں نے کچھ ٹھہرکر کہا۔ ’’ہاں، ان کے پاس راستہ تھا کہ قائد اعظم کے ساتھ سمجھوتا کرکے ایک خود مختار پنجاب کے مالک بن جاتے۔ لیکن وہ نہرو کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’جواہر لال دھوکہ باز انسان تھا۔ اس پر سکھ پوری طرح اعتماد نہیں کرتے تھے۔ مگر گاندھی کی سیاست کی کاٹ کسی کے پاس نہ تھی۔ گاندھی دنیا کا وہ سب سے بڑا اداکار تھا۔ جو اپنے میٹھے لہجے سے بڑے بڑے سمجھدار لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کا فن اچھی طرح جانتا تھا۔ ہماری اس وقت کی قیادت نے، گاندھی کو باپو مان کر کسی تحریری معاہدے کے بغیر یقین کرلیا کہ مشرقی پنجاب انہی کو ملے گا۔ مسلم لیگ جو باقاعدہ معاہدہ کرنے جارہی تھی۔ سکھوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور یوں سکھوں کی لیڈر شپ نے اپنی پائوں پر خود کلہاڑی مار لی‘‘۔
میں نے سکھبیر سے کہا۔ ’’چلو جو ہوا سو ہوا۔ لیکن اپنے بڑوں کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اب ہم مل کر آزادی کی جدوجہد کر سکتے ہیں‘‘۔
سکھبیر نے سر ہلاکر میری تائید کی۔ تبھی مہتاب سنگھ نے اسے بتایا۔ ’’سکھبیر پاہ جی، ہم خان کوٹ پہنچنے والے ہیں۔ وہاں سے بشمبر پور ہوکر بنڈالا کے راستے لگ بھگ پونے گھنٹے میں سیدھے پنڈوری گولا پہنچ جائیں گے‘‘۔
سکھبیر نے اس کی بات غور سے سنی اور استفسار کیا۔ ’’اس کا مطلب ہے ہمیں ترن تارن صاحب سے گزر کر وہاں نہیں جانا پڑے گا؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے کہا۔ ’’ٹھیک سمجھے ہو بھائیا جی۔ ترن تارن صاحب کو تین میل کے قریب سیدھے ہاتھ پر چھوڑ کر وہاں پہنچیں گے‘‘۔
سکھبیر نے خوش ہوکر کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ہمیں ترن تارن صاحب کی پولیس کی نظروں میں آنے کا خطرہ مول نہیں لینا پڑے گا‘‘۔
مہتاب سنگھ نے کہا۔ ’’ہاں جی، میں نے اسی لیے تو یہ راستہ چُنا ہے‘‘۔
سکھبیر نے اس سمجھ داری پر مہتاب سنگھ کو شاباش دی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’عقل کے ساتھ جی داری میں بھی اس جوان کا کوئی جواب نہیں۔ اس کا نشانہ بھی بہت سچا ہے۔ ساتھ ساتھ گاڑی بھی بہت اچھی چلاتا ہے۔ اپنے ماں باپ کا اکیلا اور بہت لاڈلا بیٹا ہے۔ لیکن ضد کر کے سر کی بازی لگانے کے لیے ہمارے ساتھ آن ملا ہے‘‘۔
میں مہتاب سنگھ کی کم ازکم ایک خوبی کی خود بھی تصدیق کر سکتا تھا۔ سڑک کی حالت بہت اچھی نہ ہونے کے باوجود وہ مناسب رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا اور اس دوران میں جیپ کہیں بھی اس کے قابو سے ذرا بھی باہر نہیں ہوئی تھی۔ اس نے ایک بڑے سے قصبے کے پاس سے گزرتے ہوئے بتایا۔ ’’یہی بشمبر پور ہے جی۔ یہاں سے ہم چھوٹی سڑک پر مڑجائیں گے۔ راستہ تو کچھ لمبا ہے، پر پولیس کا سامنا ہونے کا خطرہ کم ہے‘‘۔
ہم جس چھوٹی سڑک پر مڑے تھے۔ وہ شاید طویل عرصے سے مرمت سے محروم تھی۔ لہٰذا جیپ کی رفتار کچھ دھیمی پڑگئی اور ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے اور شدید دھچکے لگنے لگے۔ خوش قسمتی سے باقی راستہ بارہ تیرہ میل سے زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور ہم سرسبز کھیتوں کے درمیان چند موڑ مڑنے کے بعد لگ بھگ نصف گھنٹے میں درمیانے حجم کے ایک گاؤں کی طرف بڑھنے لگے۔ تبھی ہمیں گاؤں سے تقریباً تین فرلانگ ہٹ کر تعمیر شدہ ایک عالی شان حویلی دکھائی دینے لگی۔ اس کے آس پاس بھی درجن بھر کچے پکے مکان بنے ہوئے تھے۔ لیکن اس حویلی کے مقابلے میں ان کی کم مائیگی کچھ اور بھی نمایاں ہوگئی تھی۔
جیپ کو حویلی کی طرف بڑھاتے ہوئے مہتاب سنگھ نے کہا۔ ’’یہی مٹھو سنگھ کا دولت خانہ ہے جی۔ ویروار (جمعرات ) کو تو یہاں میلہ لگا ہوتا ہے عوام کا۔ کبھی کبھی تو سو سے بھی زیادہ فریادی اکٹھے ہوجاتے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’اپنا دربار کہاں سجاتا ہے مٹھو سنگھ؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے بتایا۔ ’’حویلی کے پچھواڑے بہت بڑا پنڈال بنوارکھا ہے جی۔ اوپر چھپر ڈلوا رکھا ہے۔ غریب فریادی چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں اور مٹھو سنگھ قالین پر گاؤ تکیہ لگائے ان کی فریادیں سنتا رہتا ہے۔ زیادہ تر زبانی ہی حکم چلاتا ہے۔ پر کبھی کبھی کاغذی کارروائی کی نوبت بھی آجاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’کھاتے پیتے، صاحب حیثیت لوگ بھی تو آتے ہوں گے ناں؟ وہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کی کوئی باقاعدہ جگہ بھی ہوگی؟ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری جیپ وہاں جانے سے وہاں تعینات رکھوالے چونکیں گے تو نہیں؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے کہا۔ ’’ہاں جی، اکثر آتے ہیں۔ بہت سوں کو تو خود مٹھو سنگھ بلواتا ہے۔ کوئی جھگڑا ختم کروانے کے لیے۔ وہیں پنڈال کے پاس ہر طرح کی گاڑیاں، تانگے اور بیل گاڑیاں وغیرہ کھڑی ہوتی ہیں‘‘۔
میں نے سکھبیر سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے سکھبیر بھائی۔ آپ لوگ باقی گاڑیوں سے ذرا ہٹ کر، پنڈال کے بالکل قریب اپنی جیپ کھڑی کرنا۔ پنڈال میں صرف میں جاؤں گا۔ آپ لوگ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اپنے ہتھیاروں سے زبردست ہوائی فائرنگ شروع کر دینا۔ اس دوران انجن بھی اسٹارٹ کرلینا۔ میں اپنا کام کرکے دوڑتا ہوا واپس آؤںگا اور ہم فوراً ہی یہاں سے روانہ ہوجائیں گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More