لاہور کے سروسز اسپتال میں آنے والے ہزاروں جاب بلب مریض کلام الٰہی سن کر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ سورۃ رحمٰن کی تلاوت سے مریضوں کا علاج اسلام آباد کے پمز اسپتال، پشاور کے رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور لاہور کے سروسز اسپتال کے علاوہ لاہور ہی کے جناح اسپتال اور اتفاق اسپتال، راولپنڈی کے نوری اسپتال اور ملتان کے اسپتالوں میں بھی کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے کلام سے شفا بانٹنے والے لاہور کے سینئر ڈاکٹر محمد جاوید احمد نے کیا۔ ان کی ہمشیرہ بھی صحت یاب ہو چکی ہیں۔ ان کے بعد سلیم نامی چالیس سالہ ایسا مریض بھی صحت یاب ہوا جو کالے یرقان کے آخری اسٹیج پر تھا۔ اسے مسلسل خون لگانے کی ضرورت تھی۔ لیکن ریلوے سے ریٹائرڈ بوڑھا باپ بیٹے کیلئے مزید خون کا انتظام کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ نہ علاج کے اخراجات برداشت کرنا اس کے بس میں تھا۔ لیکن مشہور مصری قاری عبدالباسط کی آواز میں سورۃ رحمٰن کی تلاوت سننے کے بعد سلیم ناقابل یقین انداز میں صحت یاب ہونے لگا۔ ڈاکٹر جاوید احمد بھی سورۃ رحمٰن کی تلاوت سن کر موذی مرض سے شفایاب ہوئے۔ ان کے مطابق آئی سی یو میں ایک ایڈز کے مریض کے علاج کے دوران انتہائی اچھی اور پروفیشنل نرس جب اس مریض کو انجکشن دے رہی تھی تو سرنج غلطی سے ان کے ہاتھ میں لگی گئی۔ یوں وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران اس موذی مرض کی زد میں آگئے۔ لیکن پھر سورۃ رحمٰن کی تلاوت سننے سے اللہ کریم نے انہیں مکمل صحت دے دی اور انہوں نے اپنے زیر نگرانی آئی سی یو میں مریضوں کو اس طریقہ علاج کی برکات سے فیض یاب کرنا شروع کر دیا۔ اب لاہور یورنیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس میں سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کے انسانی جینز پر اثرات کے حوالے سے ریسرچ شروع کر دی گئی ہے۔
سورۃ رحمان سننے سے نہ صرف ڈاکٹر محمد جاوید احمد HIV کے وائرس سے پاک ہوئے، بلکہ بعد ازاں ہزاروں دوسرے مریض کو بھی اللہ نے شفا نصیب فرمائی۔ ان ہزاروں میں جرمنی سے جنیٹک سائنسز میں پوسٹ پی ایچ ڈی کرنے والے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے استاد ڈاکٹر طارق اور جرمنی سے ’’آرٹیفشل انٹیلی جنس‘‘ میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر فواد علی بخاری بھی شامل ہیں۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات سے ’’امت‘‘ نے بات چیت بھی کی۔ ڈاکٹر طارق کہتے ہیں شروع میں وہ خود دلی طور پر مطمئن نہ تھے۔ لیکن جب انہوں نے اپنی ریڑھ کی ہڈی کے موہروں ’’ایل فور اور ایل فائیو‘‘ کے ڈیمیج ہوجانے کی وجہ سے سالہا سال تک سخت اذیت برداشت کی اور بالآخر اس جانب مائل ہوگئے تو اللہ نے انہیں ناقابل یقین حد تک جلد مکمل صحت عطا کردی۔ پھر انہوں نے اس طریقہ علاج سے ایک سو کے قریب سائنسدانوں اور پروفیسرز کو مستفید کیا۔ ان میں سے غالب اکثریت ایسے لوگوں کی تھی کہ اولاً وہ غیر مسلم تھے۔ نیز ان میں بھی ایسے تھے جو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہی نہیں تھے۔ ڈاکٹروں کے بقول لمز لاہور کے سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ بھی اس طریقہ علاج سے استفادہ کرچکے ہیں یا اس کے قائل ہوچکے ہیں۔ جبکہ بھارت کے کئی پروفیسر اور سائنسدان بھی اپنا علاج کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر فواد بخاری کی ایک حادثے میں آنکھوں کی بینائی غیر معمولی طور پر متاثر ہوگئی۔ آنکھوں کے آٹھ آپریشن ہوئے اور غیر ملکی ماہر ڈاکٹروں نے یہاں تک کہا کہ اب آپ شاید پڑھ نہ سکیں اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں۔ لیکن ڈاکٹر جاوید احمد کے رابطے میں آنے کے بعد انہوں نے بھی سورۃ رحمٰن کی تلاوت سننے کا طریقہ علاج اختیار کیا اور آج وہ چشمہ لگائے بغیر پڑھنے لکھنے کا بھی کام کر لیتے ہیں اور پیشہ ورانہ سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ گاڑی بھی چلاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے ان تمام حضرات سے جو لاہور میں تھے، رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس طرف کیسے مائل ہوئے؟ تو معلوم ہوا کہ اس میدان میں ایک عجز و انکسار میں ڈھلی اور اللہ کی رحمانیت کے سائے میں آئی ڈاکٹر میمونہ سب سے پہلی ڈاکٹر تھیں، جو اپنے پیر بابا سے متاثر تھیں اور انہوں نے ہی سب سے پہلے ڈاکٹر محمد جاوید احمد کی ہمشیرہ اور سلیم نامی مریض کو اس طریقہ علاج سے ٹھیک کر کے شعبہ طب میں انقلاب پیدا کیا۔ واضح رہے ڈاکٹر میمونہ آج کل سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیر یونیورسٹی اسپتال ریاض میں بطور کنسلٹنٹ ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔ لاہور میں اس طریقہ علاج سے استقادہ کرنے والی اور اسے عام کرنے کیلئے کوشاں نمایاں شخصیات سے ’’امت‘‘ نے بات چیت کی، جو نذر قارئین ہے۔ ڈاکٹر جاوید احمد کہتے ہیں ’’سچی بات یہ ہے کہ شروع میں اس طرح کی باتوں کو میں مذاق سمجھتا تھا۔ ہوا یہ کہ میں لاہور کے ایک اہم اسپتال کے آئی سی یو سے منسلک تھا۔ اس آئی سی یو میں ایڈز کا ایک مریض داخل ہوا۔ ہمارے آئی سی یو کے سب سے زیادہ محنتی اور ذمہ دار نرس جس کا نام شازیہ اکرام تھا، اس مریض کو انجیکشن لگا رہی تھی۔ میں بھی پاس ہی موجود تھا۔ مریض تکلیف میں تھا، کہ نرس کا سرنج کنٹرول نہ رہ سکا اور نرس کے ہاتھ میں پکڑی سرنج کی سوئی میرے ہاتھ میں لگ گئی۔ یہ محض اتفاق تھا۔ لیکن ایڈز کے مرض میں مبتلا مریض والی سرنج کی سوئی اس طرح دوسرے شخص کو چبھ جانے کا مطلب واضح تھا۔ گویا میرے لئے ایک اذیت کا دور شروع ہوگیا۔ میں اپنا مسئلہ گھر والوں کو بھی بتانے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ نہ کسی اور کو بتا کر مزید مسائل پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہ واقعہ صرف ہمارے پروفیسر شیخ یونس، نرس شازیہ اکرام اور میرے علم میں تھا۔ مجھ سمیت سب کو پتہ تھا کہ HIV کا علاج نہیں۔ البتہ سوئی کے ذریعے وائرس منتقل ہونے کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کیلئے بیس گھنٹے اندر اندر جو انجکشن لگوانا ضروری تھا، وہ میں نے لگوایا۔ سخت اذیت کا دور تھا۔ ہر تین ماہ بعد ٹیسٹ کراتا۔ چھ ماہ بعد بی اور سی پازیٹو آیا اور ایک سال بعد HIV پازیٹو آنا شروع ہوگیا۔ نرس جس کے ہاتھ سے سرنج غلطی سے میرے ہاتھ میں چبھ گئی تھی، اس نے اس وجہ سے ملازمت ہی چھوڑ دی۔ یہ سارا اذیت کا دور ڈھائی سال جاری رہا۔ اسی دوران میری ہمشیرہ کو وائرل نمونیا ہوگیا۔ گھر والے انہیں میرے پاس اتفاق اسپتال لے آئے۔ ہمشیرہ کے دل اور پھیپڑوں میں سوزش پیدا ہوچکی تھی۔ بہن کی حالت اچھی نہ تھی۔ میں کافی پریشان تھا، کہ اسی دوران اسپتال کی ایک جونیئر ڈاکٹر میمونہ میرے کمرے میں آئیں۔ بڑے نرمی اور عاجزی کے انداز میں ڈاکٹر میمونہ نے مجھے مخاطب کیا اور کہا، ڈاکٹر صاحب! میں آپ کی بہن کی خبر لے سکتی ہوں؟ میں نے دل میں سوچا روایتی جونیئر ڈاکٹرز کی طرح مجھے خوش کرنے کیلئے وہ میری بہن کو آئی سی یو میں دیکھنے جانا چاہتی ہوگی۔ بہرحال میں نے کہا، دیکھ لیں۔ میں اس دوران اپنے کمرے میں ہی رہا، کہ تھوڑی دیر بعد والدہ کا فون آیا، ادھر آؤ۔ میں آئی سی یو میں گیا۔ کیا دیکھا کہ بہن بیڈ چھوڑ کر کھڑی تھی اور والدہ سے کہہ رہی تھی، میں ٹھیک ہوں، مجھے گھر لے چلو۔ میں یہ دیکھ کر اور پریشان ہوا کہ بہن کے غالباً ذہن پر اثر ہوگیا ہے۔ ورنہ اس حالت میں آئی سی یو چھوڑ کر گھر جانے کی بات کیسے کرسکتی ہے۔ میں نے بھی بہن سے کہا کہ ابھی گھر نہیں جاسکتیں۔ آپ بہتر ہو بھی گئی ہیں تو ابھی یہیں رہنا ضروری ہے۔ لیکن بہن نہ مانی۔ بلکہ وہیل چیئر بھی قبول نہیں کی۔ دو تین منزلوں کی سیڑھیاں آسانی سے اتر کر گھر روانہ ہوگئی۔ میں جب والدہ کے بلانے پر آئی سی یو میں آیا تھا تو مجھے وہ منظر یاد آنے لگا۔ ڈاکٹر میمونہ میری بہن کو سورۃ رحمٰن سنا رہی تھی، موبائل فون سے۔ جبکہ اس طرح انہیں چند گھونٹ پانی اللہ کا تین مرتبہ نام انتہائی محبت اور پیار سے لینے کا کہہ کر پلا چکی تھی۔ مجھے لگا یہ پاگلوں والی بات کر رہی ہے۔ اور کہہ رہی تھی یہ آب زم زم ہوگیا ہے۔ بہرحال اگلے دن میں نے سارا وقت گھر پر گزارا کہ بہن کی طبیعت دوبارہ خراب نہ ہوجائے اور اسپتال نہ لے جانا پڑے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بہن کی طبیعت بہتر ہوتی گئی۔ تاہم میں نے واپس اسپتال جاکر ڈاکٹر میمونہ سے کوئی بات نہیں کی۔ ہاں یہ ضرور سوچنے لگا کہ شاید ہمشیرہ اتنی بیمار ہی نہیں تھی۔ گھر والوں نے خوامخواہ زیادہ پریشانی محسوس کرلی تھی۔ خود بھی ڈر گئے تھے اور بہن کو بھی ڈرا رہے تھے۔ ڈاکٹر میمونہ نے بھی اس دوران کبھی میری بہن کے صحت یاب ہوکر اچانک گھر واپس جانے کا ذکر نہیں چھیڑا۔ ہفتہ دس دن گزرے تو ایک اور حیران کن واقعہ اسی آئی سو یو میں پھر دیکھنے کو ملا۔ اس واقعے کا اہم کردار بھی ڈاکٹر میمونہ ہی تھی۔ ایک ریٹائرڈ گارڈ کا پنتیس چالیس سالہ بیٹا آی سی یو میں داخل تھا۔ لیکن غریب اور بوڑھا ریٹائرڈ ریلوے گارڈ اپنے بیٹے کیلئے خون کی بوتلیں مزید فراہم کرنے سے انکاری تھا۔ میں نے ریٹائرڈ گارڈ کو نرمی کے ساتھ بتایا کہ اس کا بیٹا کالے یرقان کت آخری اسٹیج پر ہے۔ خون نہ لگایا گیا تو اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بوڑھے اور بے بس باپ نے کہا کہ میرے لئے مزید خون کا انتظام کرنا ممکن نہیں رہا۔ میرے پاس نہ وسائل ہیں نہ اتنے لوگ کہ میرے بیٹے کیلئے خون دیتے رہیں۔ میں نے کہا کہ اس طرح تو اس کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ باپ نے کہا کہ میں غریب آدمی ہوں۔ بیٹے کا علاج جاری نہیں رکھ سکتا۔ یہ مرتا ہے تو جو اللہ کی مرضی۔ میں نے پہلے جس طرح خون کی تین بوتلوں کا بندوبست کیا ہے، وہ مجھے ہی پتہ ہے۔ میں پنشن والا بندہ ہوں۔ کہاں سے پیسے لاؤں (یہ 2001/2000ء کی بات ہے)۔ بیمار بیٹا بھی سن رہا تھا اور بے بسی سے رو رہا تھا۔ اسی دوران جب میں اس بوڑھے بابے کو سمجھا رہا تھا ڈاکٹر میمونہ آگئیں اور انہوں نے بھی ہمارے مکالمے سن لئے۔ پھر ڈاکٹر میمونہ مریض کے پاس چلی گئیں اور اسے پانی پلاتے ہوئے کہا کہ آنکھیں بند کر کے بہت پیار سے تین مرتبہ اللہ، اللہ، اللہ کہو اور پھر یہ پانی پی لو۔ میں یہ منظر استہزائیہ انداز میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کہاں سے پڑھ کر آئی ہیں یہ ڈاکٹر۔ آئی سی یو میں ایک مریض کو کس طرح ڈیل کر رہی ہیں۔ مریض نے خود ہی کہہ دیا کہ مجھے ڈاکٹر نے کھانے پینے سے منع کر رکھا ہے۔ اس پر ڈاکٹر میمونہ نے اسے کہا کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ آپ یہ پانی آنکھیں بند کر کے پی لیں۔ جس طرح کہا ہے اللہ کا تین مرتبہ پیار سے نام لے کر پی جاؤ۔ سلیم نامی مریض نے اسی طرح پانی پیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر کہتا ہے کہ یہ تو زم زم ہوگیا۔ ڈاکٹر میمونہ نے اسے مزید کہا کہ آپ نے صبح دوپہر شام تین مرتبہ قاری عبدالباسط کی آواز میں سورہ رحمٰن پوری توجہ سے سننا ہے۔ اس دوران آنکھیں بند رکھنی ہیں۔ یہ عمل سات دن تک کرنا ہے۔ ہر روز تلاوت سننے کے بعد تین مرتبہ بہت پیار کے ساتھ اللہ اللہ اللہ کہہ کر پانی پی لینا۔ پھر آنکھیں کھول لینا۔ اللہ صحت دے گا۔ مریض نے یہ سب کچھ سننے کے بعد کہا کہ میرے پاس ٹیپ ریکاڈر نہیں ہے۔ ڈاکٹر میمونہ نے جھٹ مجھ سے کہا کہ سر، آئی سی یو میں ریکارڈر ہوگا؟ میں نے کہا، یہ آئی سی یو ہے۔ یہاں ڈیک نہیں لگا ہوا۔ میرا اندازہ طنزیہ تھا۔ پھر میں نے اچانک چاہا کہ اس کے اس طریقے کو کیوں نہ غلط ثابت کرنے کا اہتمام کروں۔ میں نے کہا، اچھا میں اپنے گھر سے منگوا دیتا ہوں۔ میں نے گھر فون کرکے بھائی سے کہا کہ میرا واک مین مجھے فوراً اسپتال پہنچاؤ۔ ساتھ ہی کہا، قاری عبدالباسط کی آواز میں بغیر ترجمہ والی تلاوت کی کیسٹ بھی کسی سے لیتے آؤ۔ ڈاکٹر میمونہ نے ان باتوں پر دھیان ہی نہ دیا او چپکے سے آئی سی یو سے باہر چلی گئیں۔ اگلے دن میں جب معمول کے مطابق آئی سی یو میں گیا تو سب سے پہلے اسی سلیم نامی مریض کے بیڈ کی طرف گیا۔ اس کا بیڈ نمبر 7 خالی تھا۔ مجھے لگا کہیں اس کا انتقال نہ ہوگیا ہو۔ لیکن اسٹاف نے بتایا کہ سر، وہ تو رات ہی ڈی او آر ہوکر چلا گیا تھا۔ اسے ہم نے روکا تھا۔ لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ میں ٹھیک ہوں اور علاج کے مزید اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا، میرا واک مین اس کے پاس تھا۔ وہ دے گیا واپس کہ نہیں؟ اسٹاف نے کہا کہ اس کا تو ہمیں پتہ نہیں۔ ساتھ ہی لے گیا ہوگا۔ میں نے سوچا لو، میرا SONY کا واک مین بھی گیا۔ بہرحال اس واقعے کے کئی دن بعد میں بعض دوسرے ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ سلیم نامی اسی مریض کا بوڑھا والد ریٹائرڈ ریلوے گارڈ کمرے میں بوکھلایا ہوا داخل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب، وہ ڈاکٹر میمونہ کہاں ہیں؟ میں سمجھا اس کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ کا بیٹا کیسا ہے؟۔ بابے نے کہا، میرا بیٹا اب بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، اس کے پاخانے کا رنگ کیا ہے۔ اس نے کہا بالکل ٹھیک ہوگیا ہے۔ اب خون بھی نہیں آتا۔ میں نے طنزاً کہا، جسم میں خون ہوگا تو آئے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کہا، ڈاکٹر صاحب! یہ آپ کا واک مین ہے۔ ڈاکٹر صاحب! اب میرے بیٹے کو بھوک بھی لگتی ہے۔ وہ سب کچھ کھانے لگا ہے۔ ڈاکٹر میمونہ سے پوچھا تھا کہ وہ سب کچھ کھا لے یا ابھی پرہیز کرے۔ اس وقت اتفاق اسپتال کے سینئر ڈاکٹر قیوم خان کو میں نے بتایا کہ یہ اسی بیڈ نمبر 7 والے مریض سیلم کا والد ہے، جس کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا۔ اتنی دیر میں سلیم بھی کمرے میں آگیا۔ ڈاکٹر قیوم خان نے طنزیہ لہجے میں کہا، اچھا اچھا، یہ ٹھیک ہوگیا۔ میں نے کہا، یہ سورۃ رحمٰن سننے سے ٹھیک ہوا ہے۔ ڈاکٹر قیوم پھر بولے۔ جو ہندو مریض ٹھیک ہوتے ہیں کیا وہ بھی سورۃ رحمٰن سے ہی ہوتے ہیں۔ اس کا الٹرا ساؤنڈ کراؤ۔ اسے چیک کرو۔ ہاں اس کے ٹیسٹ کراتے ہیں۔ اس کے والد نے کہا، یہ پرہیز نہیں کر رہا۔ میں نے دیکھا کہ مریض واقعی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر سکون نظر آرہا تھا۔ میں حیران تھا کہ میں تو اسے سات دن نکالتے نہیں دیکھ رہا تھا، لیکن وہ ٹھیک ہوکر میرے سامنے کھڑا ہے۔ ڈاکٹر قیوم کو جب میں نے بتایا تو انہوں نے قدرے خفگی کا اظہار کیا۔ میں نے سلیم سے کہا، آؤ، آپ کا الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں۔ سلیم نے کہا، کیا آپ اللہ کو چیک کرنا چاہتے ہیں؟ وہ یہ کہہ کر چلا گیا‘‘۔ پھر کیا ہوا؟ ڈاکٹر میمونہ سے بات ہوئی؟ ڈاکٹر محمد جاوید احمد نے کہا ’’ہاں، دو تین دن بعد ڈاکٹر میمونہ سے ملاقات ہوئی۔ تو میں نے بتایا وہ مریض آیا تھا۔ ماشاء اللہ ٹھیک تھا۔ ڈاکٹر میمونہ نے کسی خاص تاثر کا اظہار نہ کرتے ہوئے کہا، اللہ نے ٹھیک کردیا ہوگا۔ میں نے کہا کہ کیا ایسے مریض ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ جواباً ڈاکٹر میمونہ بولیں۔ سر! اللہ کیا نہیں کرسکتا؟ آپ سمجھنا چاہتے ہیں تو بابا جی سے مل لیں۔ آپ سینئر ہیں۔ میں آپ کو نہیں سمجھا سکتی۔ میرے لئے ایک سوال پیدا ہوگیا۔ یہ بابا کون ہے؟ ڈاکٹر میمونہ نے کہا۔ وہ میرے بابا جی ہیں۔ وہ دعا کرائیں گے؟‘‘۔
ڈاکٹر جاوید نے بابا جی مخدوم سید صفدر علی بخاری سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا ’’جب گیا تو مخدوم صفدر بخاری بیمار تھے۔ ڈاکٹر میمونہ ان کے ساتھ ایسے لاڈ کے ساتھ بات کر رہی تھیں کہ میں حیران رہ گیا۔ بعد میں میں نے بابا جی والے طریقے سے مسئلے کا بھی حل چاہا۔ پانی لیا اور تلاوت سنی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ HIV کے ٹیسٹ کلیئر ہوگئے۔ میں غیر معمولی خوش تھا۔ پھر میں نے بابا جی سے اجازت لی کہ یہ طریقہ علاج دوسروں کو بھی بتادوں۔ لیکن انہوں نے کہا اجازت نہیں، میری طرف سے التجا ہے کہ ایسا کرو۔ اس سے لوگوں کی بیماری، نحوست اور بدبختی سب بھاگ جائے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ اللہ کو یاد کریں تو اللہ سے پیار کرتے ہوئے کریں۔ اس کا کلام پوری توجہ سے سنیں۔ تب سے اب تک میں اس پیغام کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔ 2002ء سے آج تک اتفاق اسپتال کے آئی سی یو میں مریضوں کو سورۃ رحمٰن کی تلاوت سنانے کا اہتمام ہے۔ 2018ء سے سروسز اسپتال کے آئی سی یو میں بھی اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پمز اسپتال اسلام آباد کی ڈاکٹر ماہ رخ، ڈاکٹر صبا اور ڈاکٹر نصرت بھی سورۃ رحمٰن سے علاج کر رہی ہیں‘‘۔
انجینئر ڈاکٹر فواد بخاری نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’یہ تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک خطرناک حادثے کا شکار ہوا۔ میں اس وقت پی ایم ڈی کے لئے جرمنی میں تھا۔ حادثے کی وجہ سے میری آنکھوں کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ آنکھوں کے آٹھ آپریشن یکے بعد دیگرے ہوئے۔ اس دوران میری آنکھوں کی بینائی تقریباً مکمل چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب یقینی نہیں کہ آپ پڑھ سکو اور پیشہ ورانہ امور جاری رکھ سکو۔ یہ سرجن جرمنی کے ماہر لوگ تھے۔ میرا ڈاکٹر محمد جاوید سے رابطہ پہلے سے تھا۔ میں نے سورۃ رحمٰن والا علاج بھی کیا۔ الحمد للہ آج میں چشمے کے بغیر بھی دور نزدیک دیکھ سکتا ہوں۔ پڑھتا ہوں۔ گاڑی چلاتا ہوں اور اپی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی انجام دے رہا ہوں۔ اس علاج کی روح یہ ہے کہ انسان دوسروں کی غلطیوں اور زیادتیوں پر توجہ نہ رکھے۔ انہیں معاف کر کے مثبت ہو جائے۔ پھر اللہ سے محبت کے ساتھ آگے بڑھے، اور پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی پکار کو سنے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ میں نے ریاضی میں بھی اللہ کا اثبات دیکھا ہے۔ ارسطو سے پہلے کے ریاضی دان بھی اور ماہر ریاضی دان ’’کرٹ گیوڈل‘‘ بھی اللہ کی موجودگی کو ریاضی سے ثابت کرتا ہے۔ اللہ کی موجودگی اور کبریائی کا یہ احساس ہر طرح کی کامیابی کا ضامن ہے‘‘۔
لمز یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر طارق سے بھی ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا۔ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ 1991ء کی بات ہے۔ میری ریڑھ کی ہڈی کے موہرے ایل فور اور ایل فائیو ڈیمیج ہوگئے۔ اس وجہ سے سخت درد ہوتا تھا۔ جب درد ہوتا تو ایک ہفتے تک بستر پر پڑا رہتا۔ ڈاکٹر درد کا احساس ختم کرنے والی ادویات دے دیتے۔ 2002ء کی بات ہے کہ میں سوئٹزرلینڈ میں تھا، کہ مجھے بار بار اسپتال داخل ہونا پڑا۔ میں نے بھی اس طریقہ علاج کو اختیار کیا۔ سب کو معاف کیا۔ پھر اللہ سے معافی اور رحم طلب کرتے ہوئے پوری محبت اور پیار سے تین مرتبہ اللہ کا نام لیا۔ آنکھیں بند کر کے اللہ کا نام لیا۔ اللہ کا نام کے ساتھ پانی پیا۔ پھر سورۃ رحمٰن کی تلاوت سننا شروع کی۔ یوں اگلے ہی روز میں اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا۔ تیسرے دن میں نے سائیکل بھی چلائی۔ گویا میں مکمل ٹھیک ہوچکا تھا۔ اس تجربے سے گزرنے کے بعد اللہ کی بندگی سے پیار ہونے لگا۔ اس کے بعد میں سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور حتی کہ بھارت میں ایک سو کے قریب غیر مسلم سائنسدانوں پروفیسیرز وغیرہ کو اس طریقے سے ان کی بیماریوں سے نجات دلانے میں مدد کرچکا ہوں۔ حتی کہ خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی سورۃ رحمٰن کی تلاوت سننے سے صحت ملی‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق نے سورۃ رحمان سن کر ٹھیک ہونے والے بعض سائنسدانوں اور مختلف یونیورسٹیز کے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’میں پندرہ روز کیلئے بھارت گیا تھا۔ بنیادی مقصد ایک سائنیٹفک کانفرنس میں شرکت تھی۔ وہاں ایک سائنسدان رعشے کی غیر معمولی صورتحال کا شکار تھا۔ ان کا سیدھا ہاتھ رعشہ کی زد میں تھا۔ میں نے انہیں اللہ کے اس کلام کی برکات سے آگاہ کیا تو انہوں نے اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ الحمد للہ وہ ٹھیک ہوگئے۔ میں ان کا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتا۔ البتہ یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ٹاٹا انٹسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ میں میرے والا مضمون ہی پڑھاتے ہیں۔ جرمنی میں میرے ایک باس کی اہلیہ FRAU SCHWAR کینسر میں مبتلا تھیں۔ ڈاکٹر نے انہیں جواب دیدیا تھا اور کہا تھا ان کے پاس صرف دو ماہ باقی ہیں۔ میں نے انہیں بھی اس بارے میں بتایا۔ انہوں نے تین مرتبہ اللہ کا تصور کر کے پانی پیا اور بعد ازاں سورۃ رحمٰن کی تلاوت سنتی رہیں۔ یہ 2003ء کا واقعہ ہے۔ میں کچھ عرصہ بعد پاکستان واپس آگیا، کہ اچانک 2009ء میں مجھے جرمنی سے ایک کال آئی۔ وہی میرے باس کی اہلیہ بول رہی تھیں۔ انہوں نے سورہ رحمٰن کے اثرات کے بارے میں بتایا کہ وہ تب سے بالکل ٹھیک ہیں۔ اسی طرح جاپان کے ایک پروفیسر شین ٹاکیڈا سے سورہ رحمٰن کی برکات کا ذکر کیا۔ وہ اس وقت سے سورہ رحمٰن سننے کے علاوہ اس کا ترجمہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اس وقت سے سوہ رحمٰن کا ترجمہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق کی سربراہی میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سورۃ رحمان کے انسانی جینز اور بیماری کے ختم ہونے سے متعلق اثرات کا جائزہ لینے کے لئے تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭