ایک مرتبہ چند افراد کو عراق و ایران کے گورنر عمر بن ہبیرہ فزاری نے گرفتار کرلیا، جب امام شعبیؒ کو ان کی گرفتاری کا پتہ چلا تو فرمایا: جناب گورنر صاحب! اگر آپ نے انہیں ناحق قید کیا ہے تو خدا انہیں رہائی دے گا اور اگر آپ نے ان کو برحق قید کیا ہے تو معاف کردیں کہ آپ کے معاف کردینے سے یہ قید سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘
گورنر کو یہ انداز گفتگو اس قدر پسند آیا کہ آپ کی عزت و احترام کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کردیا۔
تین بہترین صفات
امام شعبیؒ دین و علم میں کمال مرتبہ وعظمت کے باوجود خوش گوار طبیعت کے مالک تھے، جب کوئی مزاح کا موقع آتا تو اسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔
ایک روز ایک شخص نے آپ سے پوچھا: ابلیس کی بیوی کا نام کیا تھا؟
آپ نے فورا جواب دیا: ’’میں ابلیس کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا۔‘‘
امام شعبیؒ اپنے متعلق ارشاد فرماتے تھے: خدا تعالیٰ نے مجھے تین صفات عطا فرمائی ہیں، جس کا میں شکر گزار ہوں۔
(1) جس چیز کو لوگ شوقیہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں میں نے کبھی اس چیز کو لالچی نظروں سے نہیں دیکھا (کہ ہر اچھی چیز مجھے مل جائے… میں یہ بھی خرید لوں، یہ لالچ اچھی چیز نہیں ہے، بلکہ جتنی نعمتیں رب تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں، اس پر شکر کرنا چاہئے اور جو نہیں ہے اگر قسمت میں ہوگا تو وہ بھی مل جائے گا)۔
(2) دوسری بات میں نے کبھی اپنے کسی غلام کو مارا نہیں۔
(3) تیسری صفت یہ کہ جو بھی میرا رشتہ دار مقروض فوت ہوا، میں نے اس کا قرض ادا کیا۔
پہلے تو یہ نیت کرلینا چاہئے کہ کسی حال میں بھی قرض نہیں لیں گے، کیوں کہ قرض بہت بری بلا ہے۔ ہاں اگر رب تعالیٰ آپ کو دے، تو لوگوں کے قرض اتروانے کا ذریعہ بن جائیں۔
وفات
امام شعبیؒ نے اسّی سال سے زائد عمر پائی۔ جب وہ اپنے رب کو پیارے ہوئے اور آپ کی وفات کی افسوس ناک خبر حسن بصریؒ کو پہنچی تو وہ بے اختیار پکار اٹھے: خدا تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، وہ بڑے جید عالم، بڑے خوش اخلاق اور نرم طبیعت اور دین و ایمان کے اعتبار سے عظیم مرتبہ پر فائز تھے۔‘‘
عامربن شراحیلؒکو اتنا بڑا درجہ کس وجہ سے ملا؟
آیئے ہم آپ کو وہ صفات بتلاتے ہیں جن کو انہوں نے اختیار کیا تھا، آپ بھی ان صفات کو اختیار کرنے کی نیت کرلیجئے اور دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگئے: ’’خداایا! جو صفات حمیدہ آپ نے عامر بن شراحیلؒ کو عطا فرمائی تھیں، مجھے اور میرے دوستوں کو بھی عطا فرمائیں۔‘‘
(1) امام شعبیؒ شریف طبیعت اور خوش اخلاق تھے، وہ جھگڑے کو قطعی ناپسند کرتے تھے اور ہمیشہ فضول باتوں، فضول کاموں اور ایسی فضول تحقیقات سے بچتے تھے، جن کا دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو۔
(2) اسی طرح فضول سوالوں کے جوابات دینے سے بھی بچتے تھے۔ ایک اصول یاد رکھئے کہ ہر سوال کا جواب نہیں دینا چاہئے اور فضول سوالات کے وقت خاموشی اختیار کرنا چاہئے یا بات کو بدل دینا چاہئے۔ ہاں اگر ایسا سوال ہو جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہو تو ضرور ایسے سوال کا جواب دینا چاہئے اور ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ فضول اور بے کار سوالات سے بچیں۔
(3) حضرت امام شعبیؒ نے علم کے ساتھ حلم کو بھی جمع کیا
تھا، جس طرح علم رب تعالیٰ کو پسند ہے، اس طرح حلم بھی رب تعالیٰ کو پسند ہے، حلم کا معنی یہ ہے کہ آدمی بردبار ہو، ہر بات کو ٹھنڈے مزاج سے لے، غصہ کے تقاضوں پر فوراً عمل نہ کرے، غصہ کے کڑوے گھونٹ کو پی لے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post