اپنے خورشید پر پھیلا دیئے سائے ہم نے

0

مصعب بانکا، سجیلا، وجیہ عرب نوجوان۔ علاقے کے اعلیٰ و امیر خاندان سے تعلق تھا۔
اپنے پہناوے کے لیے آج کل کے ہی کسی نوجوان کی طرح سخت حسّاس مصعب اعلیٰ سے اعلیٰ لباس خریدتے، مگر صرف ایک بار پہنتے، پھر وہ لباس ان کے دل سے اتر جاتا۔ جس گلی سے گزرتے، ان کے قیمتی عطر کی مہک دیر تک گواہی دیتی رہتی کہ مصعب یہاں سے گزرے تھے۔ کھانا کھاتے تو انواع واقسام کے کھانے دستر خوان پہ رکھے جاتے… رہائش اور سواری میں بھی بہترین انتخاب کرتے، نہایت ہی عمدہ ذوق کے مالک تھے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ گھوڑا ان کے اصطبل میںموجود رہتا تھا۔
ایسے بے مثل نوجوان کی شادی کا موقع آیا، تو نگاہ انتخاب حمنہ پر ٹھہری۔ وہ بھی اپنی جگہ بے مثل تھیں۔ نازک اندام، خوب صورت، سلیم الفطرت اور خاندانی شریف زادی۔ چاند سورج کی یہ جوڑی انڈر اسٹینڈنگ و محبت کے بہت سے مراحل بڑی جلدی طے کر گئی۔ ان کی زندگی نہایت خوشگوار تھی۔ دونوں کو ایک دوسرے کی لمحہ بھر کی جدائی گوارا نہ ہوتی۔ مصعب ضروری کام کے لیے گھر سے نکلتے، تو حمنہ کے لیے وقت کاٹنا محال ہو جاتا۔ لمحے صدی بن جاتے۔ عجیب تر بات یہ تھی کہ جب وہ واپس آ جاتے تب بھی جدائی کا ناقابل فہم خوف حمنہ کو اپنے حصار میں رکھتا۔
یوں ہی دن گزر رہے تھے۔ باہمی مزاج شناسی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حمنہ اور مصعب ایک ہی راہ کے راہی تھے۔ مصعب نے جس ہدایت پانے کے لیے اپنا لائف اسٹائل، اپنے رشتے، یہاں تک کہ اپنی ماں کی محبت اپنا سب کچھ تج دیا تھا، حمنہ کے دل کو بھی وہی لو تپش دیئے ہوئی تھی۔ ان دونوں کا عشق اسی ایک محبت کے تابع تھا۔ سب محبتیں اس عشق پر قربان تھیں۔ ان کی محبتوں اور وفائوں کا منبع و مرکز رسول اقدسؐ کی ذات تھی۔ جدائی کا ایک لمحہ نہ سہہ سکنے والی حمنہ بنت جحش کو بس یہ ایک راہ تھی، جس میں کسی قربانی سے دریغ نہ ہوتا۔ بدر میں مصعب ’’السابقون السابقون‘‘ ’’پہلوں میں سے پہلے مصعب‘‘ اپنی تلوار کے جوہر دکھا چکے تھے۔ پھر ایک اور آزمائش آئی۔
احد کا سخت اور کڑا مرحلہ آیا۔ مصعبؓ حضور اکرمؐ کی محفل سے اٹھے، گھر پہنچے اور انہوں نے اس مشکل گھڑی اور امکان سے حمنہ کو آگاہ کیا۔ جدائی اور پھر تیر و تلوار کے کھیل کا تذکرہ حمنہؓ کے نازک دل کو سخت ہی گزرنا تھا۔ مگر جب اقرار کر ہی لیا تھا، خدائے واحد کو معبود ماننے کا اسلام کو دین تسلیم کرنے کا، رسول اُمیؐ کے نبی ہونے کا… تو پھرکسی کی اپنی مرضی کیا معنی رکھتی ہے۔ خواہشات نفس کی گردن پر پائوں رکھ کر ہی تو جنت کا سودا کیا تھا میرے حضورؐ کے صحابہؓ نے۔ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی کا ہی تو دعویٰ کیا تھا محمد عربیؐ کے جاںنثاروں نے۔ اور جحش کی بیٹی حمنہؓ کے لیے عمیر کے پسر مصعبؓ سے بڑھ کر کیا چیز محبوب ہو سکتی تھی… سو ’’چارہ دل سوائے صبر کے اور کیا ہے‘‘ کے مصداق حمنہؓ نے ضبط کے کئی مراحل لمحوں میں طے کرلیے۔ بلکہ دل کا طوفان دل میں چھپائے ہمیشہ کی طرح مسکرا کر اپنے مجاہد شوہر کی ہمت بڑھائی۔
اگلا دن سامان حرب کی فراہمی و تیاری کا تھا۔ وہ سارا دن سامان تیار کرتی رہیں اور بظاہر مطمئن نظر آنے کی کوشش بھی۔ مگر بھلا وہ جن کے نہاں خانہ دل کی وہ مکین تھیں، کیسے نہ ان کا حالِ دل جان لیتے۔ سب جانتے ہوئے بھی سیدنا مصعبؓ خاموش تھے… کہ معاملہ ہر محبت سے بڑی اور اہم محبت کی آزمائش کا تھا۔ جانتے تھے کہ وفا شعار وہ ہے جو اپنے رب کا وفا دار ہو۔ جو محبت خدا کی محبت کے تابع نہ ہو بے فائدہ ہے۔ نہ محب کے کام آتی ہے نہ محبوب کو کوئی نفع پہنچا سکتی ہے۔
حمنہؓ اور مصعبؓ دونوں ہی یہ راز جان گئے تھے۔ تیاری مکمل ہوئی۔ کوچ کا نقارہ بجا اور جدائی کا لمحہ آ گیا۔ وہ کردار و عزم کا پیکر، خوبرو اور جری مجاہد ہتھیار سجا کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جانے کیسے دل کو مضبوط کر کے حمنہؓ نے ان کو الوداع کہا، آخری بار مسکرا کر اپنے مجاہد کو رخصت کیا۔ مگر جیسے ہی گھوڑے کو ایڑ لگی ضبط ریزہ ریزہ ہونے لگا۔ حمنہؓ کا دل مدینہ کی اس ریت کی طرح دھواں دھواں ہو رہا تھا جو اس بانکے سجیلے مکی سوار کی سواری کے تیز رفتار قدموں سے اڑتی تھی۔
مصعبؓ کے سامنے اب احد کا کٹھن معرکہ تھا۔ وہ معرکہ جب ایمان والوں کے ایمان خوف کی سان پر چڑھا کر آزمائے گئے تھے۔ کچھ ڈگمگائے، بہت سے ثابت قدم رہے اور بہت سوں نے عشق کی کہانی کا تکمیلی باب اپنے گرم سرخ لہو سے لکھ ڈالا۔
ادھر سیدہ حمنہؓ کے ایمان اور چاہت کی بازی میں ہمیشہ کی طرح ایمان ہی فاتح میدان تو ٹھہرا، مگر اہل دل کے معاملے عجیب ہی ہوتے ہیں۔ بجز اہل محبت کے ان کو کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ دن دنیا کے کاموں میں گزر ہی جاتا، مگر رات خوف کی گرفت میں جکڑا دل پتے کی مانند لرزتا۔ دن ایک نئی امید لے کر طلوع ہوا، رات نئے خوف کے سائے میں گزری۔ پھر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ میدان جہاد سے خاک و خون کی ان گنت کہانیاں لکھی گئیں۔ جتنے میدان میں اترے تھے، ان سے بہت کم واپس گھروں میں پہنچے۔ سیدہ حمنہؓ راستے پر منتظر کھڑی تھیں۔ پھر جب رسول اقدسؐ کے ہمراہ کچھ لوگ واپس لوٹے۔ حمنہؓ کو پہلے سگے بھائی کی شہادت کی خبر ملی۔ پیارا ماں جایا… ساتھ کھیلا ہوا۔ سر پر رکھے دست شفقت سے محرومی کا شدید احساس ہوا، مگر صبر کے دامن میں پناہ لی۔ پھر اپنی ماں کے ماموں کے کام آ نے کی اطلاع ملی۔ اسے بھی حوصلے سے سنا۔ اب حمنہؓ کے کانپتے لبوں نے سیدنا مصعبؓ کی بابت پوچھا۔ خبر دینے والے نے سر جھکا دیا۔ آہ!! حمنہؓ کے دل کو جیسے کسی نے چاک کر دیا۔ آئینہ دل سے لہو پھوٹ بہا۔ ساکت ہونٹوں سے ایک بے اختیار چیخ بلند ہوئی۔ ان کے مصعبؓ بھی شہید ہو گئے تھے۔ مکہ کے خوب رو امیر زادے مصعبؓ۔ مدینہ کے لاچار مہاجر مصعبؓ… سیدہ حمنہؓ کے دل کی سلطنت کے شہزادے مصعبؓ۔ جس نے اپنی عیش و عشرت کی دنیا حضور اکرمؐ کی نگاہ ناز پر قربان کر دی تھی۔ وہ مصعبؓ جو بدر کے فاتح اور غازی تھے۔ وہ مصعبؓ جو ایمان لانے کے بعد اپنی غربت و فقر پر ایسے رشک کیا کرتے تھے جیسا کبھی حالت عشرت میں اپنی شاہانہ زندگی پر بھی نہ کیا تھا۔
آج سیدہ حمنہؓ کو کارزار حیات میں تنہا چھوڑ کر اپنے رب کے دین پر قربان ہو گئے تھے۔ مصعبؓ نے تو دین حق سے وفا کا حق ادا کر دیا۔ مگر اب حمنہؓ ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھیں۔ ان کی خبر حضور نبی کریمؐ کو دی گئی تو آپؐ نے فرمایا کہ بیوی کے لیے شوہر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ میاں بیوی کا تعلق مثالی ہو تو ایک دوسرے کی جدائی کا صدمہ بے قرار و بے حال کر دیتا ہے۔
سیدنا مصعب بن عمیرؓ بہترین شوہر تھے۔ حضور نبی اکرمؐ کی اس حدیث کے مصداق کہ ’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہیں۔‘‘
اور سیدہ حمنہؓ بہترین بیوی تھیں۔ اس حدیث کی تصویر کہ ’’بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی جاں نثار ہو۔ جب وہ (شوہر) اسے دیکھے تو اس کا دل باغ باغ ہو جائے۔‘‘ وہ ایسی ہی تو تھیں۔
سیدہ حمنہؓ اور سیدنا مصعبؓ کی داستان عشق کے سامنے زمانے بھر کی محبت کی کہانیاں پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ یہ ہوتی ہے پاک محبت۔ اپنے معبود کی حدود میں مقید۔ وہ حدود جن کے اندر نہ ’’محبت میں سب جائز‘‘ ہوتا ہے نہ جنگ میں۔ بس وہ جائز ہوتا ہے جس کی اجازت عبد کا اِلٰہ دیتا ہے۔ جو محبت شتر بے مہار نہیں ہوتی۔ بے پناہ ہوکر بھی ضبط کے دائروں کے اندر رہتی ہے۔ نفس کی غلام نہیں ہوتی۔ اپنے پانچ چھ فٹ کے وجود پر رب کی حکمرانی کو تسلیم کیے رہتی ہے۔ سیدنا مصعبؓ میدان میں کامران ٹھہرے اور سیدہ حمنہؓ نے صابرین میں اپنا نام لکھوا لیا۔ وہ دونوں رب کی جنتوں میں ابدی ساتھ پا گئے۔
یہ ہوتی ہے محبت… یہ ہوتی ہے وفا… جنت میں لے جانے والی۔ صبح قیامت تک ساتھ نبھانے والی… کوئی لائے یہ مثالیں کہیں سے؟ لاسکے گا کوئی؟
مگر ہم بے خبر تو اپنے خورشید پر سائے پھیلا کر غیروں سے مٹی کے چراغ مانگتے پھرتے ہیں۔
ایک پادری ویلنٹائن کی کہانی ہی نہیں، محبت کی ساری مشہور کہانیاں (ہیر رانجھا، سسی پنوں، رومیو جیولٹ کسی کو اٹھا کر دیکھ لیں) سب کی سب ایسی ہی گندگیوں کی پوٹ ہیں۔ کہیں عبادت گاہ کے اندر بے حیائی کے راستے نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے تو کوئی نام نہاد عشق ماں باپ کی عزت خاک میں ملانے کا سبق دے رہا ہے۔ کہیں سوسائٹی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر گندگی کا کھیل جاری ہے تو کہیں اپنے شوہر سے بے وفائی کر کے کسی نامحرم مرد سے وفا نبھانے کو عظمت قرار دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر پیدا کرنے والے معبود سے کھلی بغاوت تو ان سب ناپاک محبتوں کی قدر مشترک ہے ہی۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت حمنہ بنت جحشؓ کی داستان کو پڑھئے اور سوچئے ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر، کیا ہے ہم جیسا کوئی بدنصیب؟؟
اپنے دامن میں بھرے ہیرے جواہرات سے بے خبر غلاظت میں ڈوبی ظاہری چمک پر فدا ہوئے جا رہے ہیں۔
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پر پھیلا دیئے سائے ہم نے
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More