حضرت سلمہ بن دینارؒ:
’’میں نے حکمت و دانش میں ابو حازمؒ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کا لوگوں کو حج کیلئے بلانا
آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ شریف کی تعمیر مکمل فرمالی، تو خدا تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ اس گھر کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) ’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی دُبلی اونٹنوں پر بھی۔‘‘ (الحج: 28)
حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا: اے میرے رب! میں لوگوں میں اس بات کا کیسے اعلان کروں، حالاں کہ میری آواز لوگوں تک نہیں پہنچ سکتی؟
حق تعالیٰ نے فرمایا: تم اعلان کردو، آواز کا پہنچانا ہمارے ذمے ہے، چناں چہ صفا پہاڑ پر اور ایک قول کے مطابق جبل ابو قبیس (ابو قیس کا پہاڑ) پر کھڑے ہو کر انہوں نے یوں آواز دے دی:
’’اے لوگو! یقین جانو، تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے، لہٰذا تم اس کا حج کرو۔‘‘
ان کے اس علان کو حق تعالیٰ نے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچا دیا اور ہر وہ شخص جس کی تقدیر میں حج کرنا تھا، اسے حضرت ابراہیمؑ کی آواز سنوا دی، حتیٰ کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، رب تعالیٰ نے ان سب کو بھی حضرت ابراہیمؑ کی آواز پہنچا دی۔ اور جس جس کے لیے قیامت تک حج کرنا مقرر اور مقدر تھا، ان سب نے اسی وقت لیبک لبیک پڑھ لیا۔ حضرت ابن عباسؓ سے اسی طرح منقول ہے۔
گزشتہ زمانے میں تو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک شخص کی آواز بیک وقت پورے عالم میں کیسے پہنچی ہوگی؟
لیکن اب تو جدید آلات نے سب پر واضح کر دیا کہ، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ایک شخص ایشیا میں بولتا ہے تو اسی وقت اس کی آواز امریکہ میں سنی جاتی ہے اور امریکہ میں بولتا ہے تو ایشیا والے گھروں میں بیٹھے بیٹھے سن لیتے ہیں۔
حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب تم حج کی دعوت دے دو گے، تو تمہاری اس دعوت پر آواز سننے والے پیدل چل کر اور اونٹنیوں پر سفر کر کے، دور دراز راستوں سے حج کے لیے چلے آئیں گے۔ (تفسیر انوار البیان:7/228)
خلیفۃ المسلمین کا سفر حج:
چناں چہ خلیفۃ المسلمین سلیمان بن عبد الملک نے 97 ہجری میں حضرت ابراہیمؑ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حج پر جانے کا ارادہ کیا۔
چوں کہ شام سے جب سعودیہ جائیں تو پہلے مدینہ منورہ آتا ہے، چناں چہ شاہی سواریاں شام کے دارالحکومت دمشق سے تیز رفتار سے مدینہ منورہ کی طرف رواں دواں ہوئیں۔ ان کے دل میں مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے اور روضہ رسولؐ پر درود وسلام کا ہدیہ پیش کرنے کا شوق بھرا ہوا تھا۔
اس شاہی قافلے میں قراء، محدثین، فقہاء، علماء، وزراء اور قائدین شامل تھے۔ جب خلیفۃ المسلمین کی مدینہ منورہ میں آمد ہوئی تو شہر کے خاص خاص اور بڑے بڑے عہدوں کے لوگ مدینہ میں امیر المؤمنین کو سلام کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لیے عقیدت کے انداز میں ان کے پاس آئے، لیکن سلمہ بن دینارؒ مدینہ کے قاضی… اور عوام و خواص کے بااعتماد عالم…اور فقیہ، بادشاہ کو سلام کرنے اور خوش آمدید کہنے والوں میں شامل نہ تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post