اسرائیل میں سیاہ فام یہودیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا

0

ضیاء الرحمٰن چترالی
غریب ممالک میں آباد یہودی، اسرائیل کو اپنی خوابوں کی سرزمین کہتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی حکومت کی ہزار کوششوں کے باوجود سفید فام یہودی افریقی ممالک سے آنے والے کالے یہودیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ پیر کے روز بھی ایتھوپیا سے 82 سیاہ فام یہودیوں کو لے کر ایک طیارہ تل ابیب میں اترا۔ مگر یہاں آباد کالے یہودی پہلے ہی امتیازی سلوک کے خلاف مظاہروں میں مصروف ہیں۔ جسے عالمی میڈیا نے ’’یہودیوں کا یہودیوں کے خلاف مظاہرے‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی قانون کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک میں آباد یہودیوں کو اسرائیلی شہریت دیدی جاتی ہے۔ اس قانون کو ’’واپسی کا قانون‘‘ کا کہا جاتا ہے۔ پیر کے روز بھی 82 حبشی یہودیوں کو ایک طیارے کے ذریعے تل ابیب پہنچایا گیا۔ یہ یہودی بن گورین ایئرپورٹ پر اتر کر نئے وطن آمد پر بڑے خوش تھے کہ انہیں اس صہیونی ریاست میں زندگی کی تمام سہولتیں مل جائیں گی۔ لیکن ایئرپورٹ سے نکل کر جب انہوں نے سڑکوں پر اپنے ہم وطنوں کو ہاتھوں میں پلے کارڈز اور احتجاجی بینرز اٹھائے مظاہرہ کرتے دیکھا تو ان کی خوشی کافور ہوگئی۔ کالے یہودی اسرائیل کے خلاف وقتاً فوقتاً مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن حالیہ احتجاجی تحریک تل ابیب میں ایک حبشی نوجوان کے قتل کے بعد شروع ہوئی۔ یہودا بایدجا نامی یہ نوجوان تل ابیب کے نواحی علاقے بات یام سے تعلق رکھتا تھا اور اسے پولیس نے گولی ماری تھی۔ اہل خانہ کے مطابق یہودا ذہنی مریض تھا۔ اسرائیلی جریدے بدیعوت احرنوت کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک درجنوں سیاہ فام یہودی مارے جا چکے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کی قیادت کرنے والے ایک سیاہ فام نوجوان کا مذکورہ جریدے سے بات چیت میں کہنا تھا کہ ’’ہم قتل ہونے سے بچنے کیلئے ایتھوپیا سے نقل مکانی کرکے اسرائیل آئے تھے۔ مگر یہاں بھی ہماری جان محفوظ نہیں تو باقی سہولیات کا کیا کرنا ہے۔ سیاہ فام یہودیوں کا کہنا ہے کہ سفید فام یہودی انہیں اپنے اسکولوں میں داخلہ نہیں دیتے اور انہیںاسرائیل میں مساوی حقوق حاصل نہیں۔ یہاں تک کہ کالوں کے خون کو بھی سفید فام یہودی نجس سمجھتے ہیں۔ رنگت کے امتیار کا کالوں کو ہر جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پناہ گزین جو بہتر زندگی کی تلاش میں اسرائیل کا رخ کرتے ہیں، وہ یہاں غلاموں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایتھوپیائی شہری کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی اسرائیل میں سفید فام اشکنازی یہودیوں کی نسل پرستی کا شکار ہیں۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مرکز کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ایتھوپیائی یہودی جنہیں ’’مرزاحی یہودی‘‘ کہا جاتا ہے، اشکنازی یہودیوں سے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل میں پیدا ہونے والے اشکنازی یہودی، مرزاحی یہودیوں کی نسبت دگنے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ 2014ء میں ہونے والی ایک تحقیق کی بنیاد پر اوسطاً اشکنازی یہودیوں کی آمدن مرزاحی یہودیوں سے 36 فیصد زیادہ ہے۔ جوئش ڈیلی اخبار کے مطابق اسرائیل میں ایتھوپیائی یہودی معاشرہ غربت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا شکار ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کے بروکڈال مرکز کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ایتھوپیائی نژاد اسرائیلی دیگر صیہونی باشندوں سے اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ اسرائیل کے ایک افریقی نژاد یہودی افرت یردائی لکھتے ہیں کہ معاشرے میں یہ سوچ رائج کردی گئی ہے کہ ہم ایک غیر ملکی دشمن ہیں۔ اپریل 2015ء میں ایک ایتھوپیائی نژاد فوجی پر صہیونی حکومت کے پولیس افسروں نے حملہ کر دیا۔ اس واقعے کو ایک سی سی ٹی وی کیمرے نے ریکارڈ کرلیا۔ اس سیاہ فام فوجی کا نام دامس پاکہ دہ تھا۔ پاکہ دہ ایک یتیم جوان تھا، جس نے 2008ء میں اپنے بھائی، بہنوں کے ساتھ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کی جانب ہجرت کی تھی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حبشی یہودیوں کی افزائش نسل روکنے کیلئے ان کی عورتوں کو مخصوص ادویات دی جاتی ہیں۔ اسرائیل پہنچنے والی مہاجر عورتوں کو Depo Provera نامی دوا پلائی جاتی ہے، تاکہ وہ حاملہ نہ ہوسکیں۔ 2013ء میں اسرائیل کی ایک رفاہی انجمن نے ایتھوپین نژاد سیاہ فام رکن پارلیمنٹ سے خون کا عطیہ لینے سے معذرت کرلی تھی۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں سرگرم ریڈ ڈیوڈ کریسنٹ کو وہی مقام حاصل ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرنے والی ریڈ کراس اور ہلال احمر جیسی رفاہی انجمنوں کو حاصل ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی ایتھوپین نژاد سیاہ فام خاتون رکن نینا ٹامانو شاٹا ایوان میں عطیہ خون کیمپ میں آئیں اور انہوں نے خون کا عطیہ دینے کی خواہش ظاہر کی تو ریڈ ڈیوڈ کریسنٹ کی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ انہیں ’’اوپر‘‘ سے حکم ملا ہے کہ کسی ایتھوپین نژاد یہودی سے خون کا عطیہ نہ لیا جائے۔ اس ڈائیلاگ کو وہاں موجود کیمرے نے محفوظ کرلیا تھا۔ یاد رہے کہ ایتھوپین یہودیوں نے کچھ عرصہ قبل مقبوضہ بیت المقدس میں ان خبروں پر ایک بڑا مظاہرہ کیا تھا جب مقامی اخبارات میں اس بات کا بھانڈا پھوٹا کہ اسپتالوں میں سیاہ فام افراد سے لیا جانے والا خون کا عطیہ بیمار جان کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 35 برسوں میں ایتھوپیا سے ایک لاکھ سے زائد یہودی اسرائیل لا کر آباد کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تعداد 1984ئ، 1991ء کے درمیان اسرائیل آئی۔ اسرائیل کے قیام کے کچھ برس بعد وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے 1950ء میں ’’حق واپسی‘‘ کا قانون بنایا تھا، تاکہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل میں آباد ہوسکیں اور اس کی آبادی میں اضافہ کیا جا سکے۔ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل میں جمع تو ہوگئے، مگر یورپی سفید فام یہودیوں نے دوسرے خطوں سے آنے والے یہودیوں کو دل سے قبول نہیں کیا۔ حیفا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اریہ کیزل نے 2015ء میں اس حوالے سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے، جس کے مطابق اسرائیل میں ایشیائی یہودیوں کو دوسرے اور افریقی یہودیوں کو تیسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More