رائو انوار کے خلاف جوڈیشل کمیشن بنوانے کی کوششیں

0

عظمت علی رحمانی
رائو انوار کے خلاف 444 افراد کے ماورائے عدالت قتل پر جوڈیشل کمیشن بنائے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا گیا۔ درخواست گزاروں میں نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود سمیت دیگر نے راؤ انوار، حکومت سندھ اور آئی جی سندھ کے علاوہ دیگر کو فریق بنایا ہے۔
نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود، جمشید رضا محمود ولد مرزا طیب محمود، ناطم فدا حسین حاجی ولد فدا حسین حاجی اور دیگر نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے آئینی پٹیشن کے ذریعے استدعا کی ہے جس میں انہوں نے احمد خان عرف راؤ انوار ولد نثار احمد خان، صوبائی حکومت، انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ، وفاقی سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری قانون کو فریق بنایا ہے۔ آئینی پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ 1973ء کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3) کے مطابق یہ درخواست مفاد عامہ کے حق میں ہے۔ رائو انوار اور اس کے گینگ نے ماورائے آئین و قانون 444 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا۔ نقیب اللہ محسود کیس کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ رائو انوار نے بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ اس لئے شہریوں کی فلاح و بہود کے نظریئے کے تحت یہ آئینی پٹیشن کی گئی ہے تاکہ ملک میں قانون کی بالا دستی قائم ہو سکے اور شہریوں کا قانون پر اعتماد پختہ ہو سکے۔ پٹیشن کا مقصد یہی ہے کہ پولیس افسران کو متنبہ کیا جائے کہ وہ آئندہ کسی کا بھی ماورائے آئین انکاؤنٹر نہ کرسکیں۔
پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہے کہ 18جنوری 2018ء کو سپریم کورٹ ہیومن رائٹس کمیشن میں ایک درخواست دی گئی تھی کہ ماورائے آئین و قانون کلنگ کے ذریعے نقیب اللہ محسود کا قتل ہوا ہے۔ لہذا اس پر از خود نوٹس لیا جائے جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو حکم دیا تھا کہ وہ رپورٹ جمع کرائیں کہ نقیب اللہ محسود کو کیسے کیوں اور کس نے قتل کیا ہے ؟ جس کے بعد 19جنوری 2018ء کو انکوائری کمیٹی نے ایک ابتدائی انکوائری رپورٹ جمع کرائی تھی، جس کے بعد فائنل پورٹ 25 جنوری 2018ء کو جمع کرائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے 26 فروری کو ایک حکم دیا گیا کہ ضلع ملیر میں ہونے والے پولیس مقابلوں کی مکمل تفصیل بھی فراہم کی جائے۔
پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی سمری کے مطابق ملیر کے علاقے میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں 444 افراد کو مارا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی جس سے انکار کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ جمع کی جانے والی رپورٹ کے مطابق 25 جولائی 2011ء سے 31 دسمبر 2011ء تک ضلع ملیر میں کل 179 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جن میں سے 6 بے گناہ تھے۔ یکم جنوری 2012ء سے 3 اکتوبر 2012ء تک 276 افراد کو مارا گیا جس میں پولیس مقابلے میں 18افراد کو بے گناہ مارا گیا۔ 22 فروری 2013ء سے 6 مارچ 2013 تک 17افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جن میں 3 بے گناہ افراد بھی تھے۔ 17جنوری 2014ء سے 31 دسمبر 2014ء تک 192 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جس میں 152 افراد کو پولیس کی جانب سے ملزم ڈیکلیئر کیا گیا، تاہم وہ بے گناہ تھے۔ یکم جنوری 2015ء سے 5 مئی 2015ء اور 11 نومبر 2015ء سے 31 دسمبر 2015ء تک 61 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جس میں سے 72 افراد کو ملزمان ظاہر کیا گیا تھا۔ یکم جنوری 2016ء سے 18ستمبر 2016ء تک 77 افراد کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا گیا تھا جن میں سے 75 افراد کے خلاف کوئی بھی کرمنل ریکارڈ پولیس کے پاس نہیں تھا۔ 8 جنوری 2017ء سے 31 دسمبر2017ء تک ملیر کی حدود میں 110 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا تھا جن کاکرمنل ریکارڈ پولیس کے پاس نہیں تھا۔ یکم جنوری 2018ء سے 18جنوری 2018ء کے دوران 8 افراد کو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جن کا کوئی کرمنل ریکارڈ پولیس کے پاس نہیں تھا۔ مجموعی طور پر 745 پولیس مقابلوں میں لوگ مارے گئے، جبکہ اس دوران کوئی بھی پولیس ہلکار زخمی نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ان 444 افراد کے بے گنا ہ ہونے کے باوجود بھی کوئی ایک انکوائری بھی کہیں تشکیل نہیں دی گئی کہ اندازہ ہو سکے کہ مرنے والا کوئی کرمنل تھا یا عام شہری کا خون ہوا ہے۔مارچ 2018ء کو سپریم کورٹ کے حکم پر را ؤ انوار گرفتار ہوا، جس کے بعد 16مارچ 2018ء کو اس کا چالان جمع کیا گیا۔ تاہم اسے جیل میں بھیجنے کے بجائے ملتان لائن ملیر کنٹونمنٹ بورڈ میں منتقل کیا گیا۔ تاہم اب 10ماہ گزر جانے کے بعد بھی راؤ انوار اور اس کے گینگ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ معزز عدالت ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے اور وہ کمیشن 3 ماہ میں اپنی رپورٹ جمع کرائے۔ کمیشن ان افسران کی بھی نشاندہی کرے جن کی مداخلت سے ان 444 ماروائے آئین قتل کے باوجود کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ کمیشن تجویز کرے کہ جن خاندانوں کے بے گناہ افراد کو مارا گیا ہے ان کو کس مد میں کس طرح سہولت دی جائے اور کمیشن یہ بھی طے کہ آئندہ کسی کو بھی ماروائے آئین کسی کو پولیس مقابلے میں مارنے کی ہمت نہ ہو۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More